دی ہیگ، 29/ اپریل (ایس او نیوز /ایجنسی)عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں اسرائیل کے خلاف دائر کیے گئے ایک اہم مقدمے کی سماعت پیر سے شروع ہو گئی، جس میں غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل پر عائد اسرائیلی رکاوٹوں کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس مقدمے میں ترکی سمیت 39 ممالک، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)، عرب لیگ، افریقی یونین اور اقوام متحدہ شامل ہیں، جنہوں نے اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ سماعت کے دوران مختلف ممالک اس بات پر زور دیں گے کہ اسرائیل نے غزہ میں امدادی سرگرمیوں، خاص طور پر اقوام متحدہ کی ایجنسی ’انروا‘ کی کارکردگی کو محدود کر کے انسانی بحران کو مزید سنگین بنایا ہے۔ عدالت اس معاملے پر ہفتہ بھر غور کرے گی اور اسرائیل کے طرزِ عمل کو عالمی قوانین کے تحت جانچنے کی کوشش کرے گی۔
۲؍ مارچ کے بعد سے اسرائیل نے غزہ پٹی کے ۲ء۳؍ ملین باشندوں کیلئے امداد مکمل طور پر منقطع کر دی ہے جبکہ سال کے آغاز میں جنگ بندی کے دوران ذخیرہ شدہ خوراک اب ختم ہو رہی ہے۔
دسمبر میں اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ عدالت کو یہ کام تفویض کیا گیا تھا کہ ریاستیں اور بین الاقوامی گروپ بشمول اقوامِ متحدہ فلسطینیوں کو جو امداد فراہم کرتے ہیں، اس کے لیے اسرائیل کی ذمہ داریوں کے بارے میں ایک مشاورتی رائے قائم کی جائے۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ اس وقت تک غزہ میں سامان اور رسد کے داخلے کی اجازت نہیں دے گا جب تک حماس باقی تمام اسرائیلی یرغمالوں کو رہا نہ کر دے۔
اسرائیل نے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ حماس پر دباؤ ڈالنے کیلئے کسی بھی امداد کو غزہ میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اس کے بعد جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے گزشتہ ہفتے اسرائیل سے مطالبہ کیا تھاکہ وہ غزہ میں انسانی امداد کی بلاتعطل فراہمی کی اجازت دے کر بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جمعہ کو کہا تھا کہ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پر دباؤ ڈالا کہ وہ محصور فلسطینی سرزمین میں خوراک اور ادویات کے داخلے کی اجازت دیں۔ اسرائیل بارہا حماس پر انسانی امداد چھین لینے کا الزام لگاتا رہا ہے۔ حماس نے ان الزامات کی تردید کی اور اسرائیل کو قلت کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ دسمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ۱۹۳؍ میں سے۱۳۷؍ ممالک کی منظور کردہ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اسرائیل فلسطینی آبادی سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کی تعمیل کرے۔ قرارداد میں غزہ کی سنگین انسانی صورتِ حال پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
اسرائیل، امریکہ اور۱۰؍ دیگر ممالک نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا جبکہ ۲۲؍ ممالک نے ووٹ نہیں دیا۔ پیر کو دی ہیگ میں عدالت سے خطاب کرنے والے اولین لوگوں میں فلسطینی علاقوں کے نمائندگان شامل رہے۔ اسرائیل ان تقریباً۴۰؍ ممالک میں شامل نہیں ہے جو جمعہ تک ہونے والی ۵؍ روزہ سماعتوں کے دوران اپنا موقف رکھیں گے۔ امریکہ بدھ کوعدالت میں اپنے دلائل دے گا۔
عالمی عدالت کی مشاورتی آراء قانونی اور سیاسی وزن کی حامل ہوتی ہے حالانکہ یہ پابند نہیں ہوتیں اور عدالت کے پاس اپنے احکامات کے نفاذ کے اختیارات نہیں ہیں۔ اقوامِ متحدہ غزہ اور مغربی کنارے کو اسرائیل کے زیر قبضہ علاقہ تصور کرتا ہے۔ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت کسی علاقے پر قابض طاقت کیلئے ضروری ہے کہ وہ ضرورت مند لوگوں کیلئے امدادی پروگراموں میں سہولت فراہم کرے اور خوراک، طبی نگہداشت، حفظانِ صحت اور صحت عامہ کے معیارات کو یقینی بنائے۔ سماعتوں کے بعد عالمی عدالت کو اپنی رائے قائم کرنے میں کئی ماہ لگیں گے۔
واضح رہےکہ پیر۱۷؍ فروری کو اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہونے فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (انروا) پر پابندی کے قانون کے نفاذ کا حکم دیا تھا۔ صہیونی کنیسٹ نے ۲۸؍ ا کتوبر ۲۰۲۴ء کو ۲؍ قوانین منظور کئے تھے جن میں اُنروا کو اسرائیل کے اندر کسی بھی قسم کی سرگرمی انجام دینے سے منع کیا گیا تھا ۔ اسےحاصل مراعات اور سہولیات کو منسوخ کیا گیا اور اس کے ساتھ کسی بھی سرکاری رابطے کو ممنوع قرار دیا۔ ۳۰؍ جنوری کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں سمیت اسرائیل میں ’انروا‘ کی کارروائیوں پر پابندی کا نفاذ عمل میں آیا تھا۔