ابوظہبی، 27/جنوری (ایس او نیوز /ایجنسی)متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں ایک مالیاتی ٹیکنالوجی پلیٹ فارم کی جانب سے کئے گئے سروے کے نتائج نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ملک کی نصف سے زائد آبادی اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کر رہی ہے۔ گزشتہ سال، سروے میں شامل 50.46 فیصد افراد نے اپنی کمائی سے زیادہ رقم خرچ کی تھی۔ اس سروے کا مقصد بچت اور سرمایہ کاری کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔ یابی کی مالیاتی صحت کی 2024 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک کی ایک بڑی تعداد ضرورت سے زائد اخراجات میں ملوث ہے، جبکہ صرف 33.53 فیصد افراد ریٹائرمنٹ کے لیے پس انداز کرنے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ اماراتی باشندے مالی تحفظ اور مستقبل کی تیاری میں کمی کر رہے ہیں، جو کہ انہیں آنے والے وقت میں مالی مشکلات کا سامنا کروا سکتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی شامل ہے کہ 41 فیصد افراد اپنے طویل مدتی مالی اہداف کو حاصل کرنے میں مایوس ہیں، جو کہ مالی منصوبہ بندی اور استحکام کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔
خلیج ٹائمز کے مطابق، رپورٹ میں مزید انکشاف ہوا کہ اگرچہ، سروے میں شریک ۶۳ فیصد سے زائد جواب دہندگان اپنے بلوں کو وقت پر ادا کرتے ہیں، لیکن ان میں سے نصف افراد، کسی آمدنی کے بغیر، ۲ ہفتے یا اس سے کم عرصے تک ہی اپنے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔ یہ حقیقت شہریوں کی مالیاتی تحفظ میں شدید کمزوری کو نمایاں کرتی ہے اور آبادی کے درمیان بہتر مالیاتی تعلیم اور بجٹ منیجمنٹ کی مہارتوں کی فوری ضرورت پر زور دیتی ہے۔
لوگ زیادہ خرچ کیوں کرتے ہیں؟خلیج ٹائمز سے بات کرتے ہوئے، مالی مشیر راجی کیپلل نے کہا: "اماراتی باشندوں کا اپنی کمائی سے زیادہ خرچ کرنے کے پیچھے ۳ بڑی وجوہات ہیں۔ اول، دبئی جیسے شہر میں تفریحی کلب اور پرکشش مقامات ہیں اور یہاں ہمیشہ دلچسپ سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں۔ دوم، افراد پر ظاہری چمک دمک کو برقرار رکھنے کا بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے، اس لئے وہ لگژری کار اور ڈیزائنر بیگز جیسی چیزیں خریدتے ہیں جنہیں وہ درحقیقت برداشت نہیں کر سکتے۔ سوم، کریڈٹ کارڈز اور بعد میں ادائیگی کی سہولیات نے خریداری کو انتہائی آسان بنادیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ زندگی کی بڑھتی لاگت نے رہائشیوں کو اپنی خرچ کی عادات پر نظر ثانی کرنے اور اپنے وسائل کے اندر رہنے پر توجہ دینے پر مجبور کیا ہے۔ اگرچہ اب کافی افراد بچت اور سرمایہ کاری کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ اب بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جن پر یہ واضح نہیں ہے کہ ہر مہ، ان کی آمدنی کہاں جا رہی ہے۔ کیپلل کا کہنا ہے کہ ہر فرد کو اپنی ماہانہ تنخواہ کا کم از کم ۲۰ فیصد حصہ بچانے کا ہدف رکھنا چاہئے۔ اس رقم کو ایک ہنگامی فنڈ کی طرف منتقل کیا جاسکتا ہے، جو مستقبل میں مالی مشکلات کے دوران کام آسکتا ہے۔ آپ کا ہنگامی فنڈ، آپ کے مقررہ اخراجات یعنی ۳ سے ۶ ماہ کی کل تنخواہ کے برابر ہونا چاہئے۔
بجٹ سازی کا 50/30/20 اصول: دبئی جیسے تیز رفتار شہر میں زندگی گزارنے کیلئے مالی طور پر منظم رہنا بہت ضروری ہے۔ خاص طور پر ان مہینوں میں جب آپ کی آمدنی غیر متوقع ہوسکتی ہے۔ کیپلل نے بجٹ سازی کے ۵۰/۳۰/۲۰ اصول کے تحت مالیاتی منصوبے کو بہتر بنانے میں مدد کرنے کیلئے ۳ تجاویز شیئر کیں:
اپنی ماہانہ آمدنی کا ۵۰ فیصد حصہ، مقررہ اخراجات یا ضروریات، جیسے کرایہ کی ادائیگی، بل، بجلی اور تعلیم کیلئے مختص کریں۔
۳۰ فیصد حصہ، خواہشات کی تکمیل کیلئے وقف کریں، جس میں باہر کھانا، خریداری، خود کی دیکھ بھال اور دیگر صوابدیدی اخراجات شامل ہیں۔
اپنے مالی اہداف اور مستقبل کے منصوبوں کیلئے اپنی تنخواہ کا بقیہ ۲۰ فیصد حصہ، کی بچت کریں یا اس سے سرمایہ کاری کریں۔