رام اللہ،5/مئی (ایس او نیوز /ایجنسی) اسرائیلی کابینہ کی جانب سے غزہ میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کی منظوری کے بعد نہ صرف جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے سے متعلق مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے ہیں، بلکہ ہزاروں ریزرو فوجیوں کو متحرک کرنے کے فیصلے نے غزہ میں کشیدگی کی فضا کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ پہلے ہی جنگ سے تباہ حال غزہ کے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، جہاں تین ماہ سے جاری اسرائیلی محاصرے نے پینے کے پانی، طبی سہولیات اور خوراک سمیت زندگی کی بنیادی ضروریات کو ناپید کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے دی جانے والی امدادی خوراک بھی مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے، جس کے باعث قحط کا شدید خطرہ منڈلا رہا ہے۔
اسی دوران غزہ کے طبی ذرائع نے مختلف میڈیا ذرائع کو بتایا کہ گزشتہ ۲۴؍گھنٹوں کے دوران اسرائیلی فوج کی جانب سے گھروں اور پناہ گزینوں کی خیمہ بستیوں پر بمباری کے نتیجے میں کم از کم ۴۵؍فلسطینی جاں بحق ہو گئے۔ خان یونس شہر میں بھی اسرائیلی فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رہا جہاں کئی اپارٹمنٹس اور خیمے تباہ کر دئیے گئے۔ اتوار کی صبح خان یونس میں بمباری کے دوران ایک ہی خاندان کے ۶؍ افراد ہلاک ہوگئے۔
اسرائیلی فوج نے غزہ کے مشرقی علاقے الشجاعیہ پر مکمل فوجی کنٹرول قائم کر لیا ہے جب کہ الزیتون، التفاح اور الشجاعی کے علاقوں پر بھی توپ خانے سے شدید گولہ باری کی جا رہی ہے۔ اس دوران اسرائیلی انجینئرنگ کور نے مشرقی غزہ میں مکانات کو دھماکوں سے منہدم کرنا شروع کر دیا ہے۔
غزہ کی موجودہ صورتحال کو اقوام متحدہ نے ایک ایسا انسانی بحران قرار دیا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں پیدا ہوا۔ اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی برائے پناہ گزین’انروا‘ (یو این آر ڈبلیو اے) نے اعلان کیا ہے کہ اس کے پاس موجود آٹے کا تمام ذخیرہ ختم ہو چکا ہے، جب کہ عالمی ادارہ خوراک بھی گزشتہ ہفتے خوراک کی فراہمی بند کر چکا ہے۔ ۳؍ماہ سے زائد عرصے سے اسرائیل نے غزہ میں امدادی قافلوں کا داخلہ بند کر رکھا ہے۔ اس اقدام سے خوراک، ایندھن اور دوا کی ترسیل مکمل طور پر رک چکی ہے جبکہ غزہ کے ۲۴؍ لاکھ سے زائد شہری مکمل طور پر بیرونی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔ موجودہ حالات میں قحط کا خطرہ شدت اختیار کر چکا ہے جس سے زخمی اور بیمار لوگ زیادہ متاثر ہیں۔
غزہ پٹی کی سرکردہ شخصیات اور قبائلی لیڈروں نے قابض اسرائیلی فوج کی طرف سے خوراک اور غذا کی قلت کو اہل غزہ کے خلاف ’ہتھیار ‘ کے طور پر استعمال کرنے کی مذمت کی۔ انہوں نے خطے کے ممالک کے سربراہوں اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کی ناکہ بندی ختم کرانے کیلئے کردار اداکریں تاکہ علاقے میں انسانی امداد کی اجازت مل سکے اور بھوک کے شکار لوگوں کی زندگیاں بچائی جا سکیں۔ غزہ میں قبائلی اور سرکردہ خاندانوں کے نمائندوں نے ایک تقریب کے بعدپریس کانفرنس میں کہا ’’ ہمارے پاس۶۰؍ دنوں سے زیادہ عرصے سے پانی، خوراک اور کھانے کی کوئی چیز نہیں ہےاور ہم مکمل قحط کا شکار ہیں ۔ ‘‘انہوں نے مزید کہا’’ ہم دنیا کے تمام آزاد لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ متحرک ہو جائیں اور ہمارے لوگوں کو بچانے اور غزہ پٹی میں امداد پہنچانے کیلئے کراسنگ کھولنے میں حصہ لیں۔ ہم بھوک سے مر رہے ہیں۔ ‘‘
مقامی شخصیات نے دنیا بھر کی تمام آزاد اور قابل احترام شخصیات اور اداروں کو ایک پیغام دیتے ہوئے کہا ’’خاموشی بہت ہوچکی۔ اب وقت آگیا ہے کہ غزہ کو بچانے کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ غزہ کے بچے، خواتین، مرد اور بوڑھے بھوک سے مر رہے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے کراسنگ کھولنے اور پٹی میں امداد کے داخلے کی اجازت دینے کیلئے مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ مصر جس نے قابض ریاست کی طرف سے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کی پالیسی کو روکا، اس کی قیادت اور عوام دونوں، خوراک لانے اور غزہ کے لوگوں کو بچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ دنیا کی بااثر طاقتوں کے ساتھ قطر کے وسیع تعلقات کے ذریعے غزہ میں غذا کے بحران کے خاتمہ کیلئے کام کریں۔ انہوں نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی مداخلت کا مطالبہ کیا۔