ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / اسپیشل رپورٹس / درگاہ کے سائے میں سیاست، بابا بڈھن گری: صوفی روایت کا سیاسی امتحان۔۔۔۔۔۔۔۔۔ از : عبدالحلیم منصور

درگاہ کے سائے میں سیاست، بابا بڈھن گری: صوفی روایت کا سیاسی امتحان۔۔۔۔۔۔۔۔۔ از : عبدالحلیم منصور

Sat, 05 Apr 2025 19:34:37    S O News

کرناٹک کی فضائیں ایک بار پھر بےچین ہیں ۔چکمگلور کی بابا بڈھن گری پہاڑیوں میں صدیوں سے ایستادہ بابا بڈھن گری (دادا پہاڑ) درگاہ صرف ایک مذہبی مقام نہیں، بلکہ صوفی روایت، مذہبی رواداری اور سماجی ہم آہنگی کی عظیم علامت ہے۔ مگر آج یہ درگاہ نہ صرف عقیدت کا مرکز ہے، بلکہ سیاسی تناؤ، فرقہ وارانہ دباؤ اور ووٹ بینک کی کشمکش میں ایک "میدانِ جنگ" بن چکی ہے۔ اسے اب سیاسی لغت میں "دتا پیٹھہ" کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔نئی کروٹ لیتا یہ تنازع موجودہ کانگریس حکومت کے متنازعہ موقف کے باعث مزید پیچیدہ ہو چکا ہے۔ اس بار ستم کسی اور نے نہیں، بلکہ ان ہاتھوں نے کیا ہے جن سے مسلمانوں نے انصاف کی امید باندھ رکھی تھی۔

حضرت دادا حیات میر قلندرؒ وہ صوفی بزرگ تھے جنہوں نے نہ صرف روحانی پیغام عام کیا بلکہ چکمگلور کی سرزمین پر ہندوستان میں سب سے پہلے کافی کی کاشت کا آغاز بھی کیا۔ آج جس "کافی لینڈ" کی پہچان چکمگلور سے جڑی ہے، وہ انہی بزرگ کا عملی فیضان ہے۔ ان کی درگاہ پر نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو عقیدت مند بھی بلا تفریق حاضری دیتے آئے ہیں۔تاہم 2000 کے بعد بی جے پی اور وشو ہندو پریشد جیسی تنظیموں نے اس مقام کو "دتا پیٹھہ" کہہ کر ہندو عبادت گاہ بنانے کی مہم تیز کی، اور یہاں ہندو مذہبی تقریبات کے لیے اجازت کا مطالبہ کیا۔ بی جے پی حکومت نے اس سمت میں کئی اقدامات کیے، اور کانگریس نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی۔ مگر آج وہی کانگریس، جس نے 2021 میں اپوزیشن میں رہتے ہوئے بی جے پی پر درگاہ کے تقدس کو پامال کرنے کا الزام لگایا تھا، اب اسی موقف کی حمایت کر رہی ہے۔یہ مقام گنگا-جمنی تہذیب کی زندہ مثال تھا، جہاں صدیوں تک کوئی مذہبی دیوار حائل نہ ہوئی۔ لیکن اب اس صوفی مقام کو "دتا پیٹھہ" کے طور پر پیش کرنے کی کوشش، مذہبی شناخت اور تاریخی حقائق دونوں پر حملہ ہے۔

بدلتے چہرے کی پہچان :کرناٹک کی کانگریس حکومت نے حال ہی میں سپریم کورٹ میں جو حلف نامہ داخل کیا ہے، اس میں بابا بڈھن گری درگاہ کو ہندو مذہبی مقام تسلیم کرتے ہوئے پجاری کی تقرری کو قانونی حیثیت دینے پر آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔ یہ فیصلہ کابینہ کی ذیلی کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر کیا گیا ہے، جس میں ایک مسلم وزیر بھی شامل تھے۔حکومت نے ضلعی سطح پر ایک نگرانی کمیٹی تشکیل دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے، جس کی سربراہی ڈپٹی کمشنر کریں گے۔دونوں فرقوں کے نمائندے،اور درگاہ کے سجادہ (شاہ قادری) اور دیگر افسران اس میں شامل رہیں گے ،یہ کمیٹی پجاری کی تقرری سمیت درگاہ سے متعلق دیگر امور کا فیصلہ کرے گی۔ یہ سب اقدامات ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں جب مسلمانوں، ملی تنظیموں اور ’کومو سوہاردا ویدیکے‘ جیسی ہندو-مسلم ہم آہنگی کی نمائندہ انجمنوں کی جانب سے بارہا نمائندگی کی جا چکی ہے کہ درگاہ کی روایتی حیثیت کو برقرار رکھا جائے۔اس صورتحال نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں کہ کیا حکومت واقعی مذہبی ہم آہنگی کے لیے قدم اٹھا رہی ہے یا بی جے پی کی طرز پر ہندو ووٹ بینک کو لبھانے کی کوشش کر رہی ہے؟،اگر بی جے پی کا یہی عمل "فرقہ واریت" تھا، تو کانگریس کا یہ اقدام کیا کہلائے گا؟ اور کیا یہ مسلمانوں کے لیے صرف مذہبی زخم نہیں بلکہ سیاسی دھوکہ بھی ہے؟بی جے پی نے ماضی میں وشو ہندو پریشد کے دباؤ میں آ کر بابا بڈھن درگاہ کو دتا پیٹھہ بنانے کی راہ ہموار کی۔ آج وہی پالیسی خود کانگریس اپنا رہی ہے۔کانگریس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ قدم "مذہبی ہم آہنگی" کے لیے ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم آہنگی صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہندو رسومات کو درگاہ میں جگہ دی جائے؟ کیا صدیوں سے موجود مسلمان عقیدت مندوں کی حاضری اور طرزِ عبادت ہم آہنگی کی علامت نہیں؟

سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کرناٹک وقف بورڈ، اقلیتی امور کے وزیر، اور کانگریس کے دیگر مسلم قائدین مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ جب درگاہ کے تشخص اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو چوٹ پہنچائی جا رہی ہے، تو ان نمائندوں کی خاموشی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔کیا اقتدار میں رہنے کی قیمت یہی ہے کہ اپنی برادری کی نمائندگی ترک کر دی جائے؟ یہ خاموشی صرف سیاسی بزدلی نہیں بلکہ ایک تاریخی غلطی ہے، جس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔یہ وقت ہے کہ مسلمان عوام، ملی تنظیمیں، دانشور طبقہ اور ہم آہنگی کے حامی تمام گروہ اس مسئلے پر بیدار ہوں۔ درگاہ کی شناخت کا تحفظ صرف مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ تہذیبی بقا کا سوال ہے۔مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے رہنماؤں سے بازپرس کریں —وہ وقف، مدارس اور مذہبی اداروں پر ہونے والے حملوں پر کب بولیں گے؟اگر نہیں بولیں گے، تو ان کی قیادت کا جواز کیا ہے؟یہ واقعہ نہ صرف وقف جائیدادوں کے تحفظ کی اہمیت اجاگر کرتا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ سیاسی جماعتیں مسلمانوں کے جذبات اور مذہبی شناخت کو صرف انتخابی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ اگر یہی رویہ جاری رہا تو نہ سیاسی تحفظ بچے گا، نہ مذہبی آزادی۔بابا بڈھن گری صرف ایک مزار نہیں، بلکہ وہ تاریخ ہے، تہذیب ہے، روحانیت ہے، اور ہم آہنگی کی وہ پہچان ہے جو کسی خاص مذہب کی جاگیر نہیں۔ اگر آج اس کی شناخت تبدیل ہونے دی گئی، تو کل دیگر درگاہیں بھی اس سیاسی تجربے کی زد میں آئیں گی۔اب وقت ہے کہ مسلمان صرف جذباتی نہ رہیں بلکہ سیاسی طور پر باشعور ہو کر اپنی تہذیبی وراثت کا دفاع کریں۔

یہی تو وقت ہے حق بات کہنے کا
ورنہ خاموشی بھی جرم بن جاتی ہے


Share: