سنی صوفی تنظیموں کا سرکار کو الٹی میٹم،یکساں سول کوڈ کی پر زور مخالفت، ہزاروں مسلمانوں کی شرکت؍بریلی درگاہ کے پیغام سے اتفاق: مولانا شہاب الدین رضوی،شریعت میں عورت کو زیادہ حق :مولانا افتخار حسین قادری
نئی دہلی، 28؍اکتوبر(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا )آل انڈیا تنظیم علمائے اسلام کے بینر تلے آج دہلی کے شاستری پارک کی قادری مسجد پرہزاروں مسلمانوں نے مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے یکساں سول کوڈ تھوپنے کی کوششوں کی مخالفت کی۔ سنی مسلمان لگاتار مرکزی قانون کمیشن کی ان سوالوں کی بنیاد پر مخالفت کی ہے جس میں عوام سے یہ رائے مانگی گئی تھی کہ کیا ہندوستان میں تین طلاق کو غیر قانونی ثابت کیا جائے۔سنی صوفی مسلمانوں کو لگتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ۹۰؍فیصد عوام جس حنفی تشریح میں بھروسہ کرتی ہے ،مرکز کی نریندر مودی سرکار اسے ہٹاکر ملک کو آر ایس ایس کے ایجنڈے پر دھکیلنا چاہتی ہے۔ہندوستان میں سنی مسلمانوں کی نمائندہ اور سب سے بڑی تنظیم آل انڈیا تنظیم علمائے اسلام کے احتجاج میں مظاہرین اور مقررین نے مرکز کی نریندر مودی سرکار کے خلاف جم کر نعرے بازی کی۔ مظاہرین کی مانگ تھی کہ لاء کمیشن نے یہ سوال پوچھ کر مسلمانوں کے ذاتی قانون میں دخل دینے کی کوشش کی ہے ۔ عین اترپردیش کے الیکشن سے پہلے اس پہل پر مقررین کاماننا ہے کہ مودی سرکارآر ایس ایس کے اشارے پر پورے ملک کا فرقہ ورانہ ماحول خراب کر اتر پردیش کے الیکشن میں بھارتیہ جنتاپارٹی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کررہی ہے ، جس کی ہر سطح پر مخالفت کی جائے گی۔
احتجاج کے دوران ہندوستان کے سب سے بڑے مسلم علماء تنظیم آل انڈیا تنظیم علمائے کے بانی و قومی صدر مولانا مفتی اشفاق حسین قادری نے کہا کہ مرکز کی نریندر مودی سرکارنے حال ہی میں مسلم بہنوں کے فائدہ کے نام پر ہندوستان میں اکثریت حنفی مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ در اصل نریندر مودی اسلام فوبیا سے دوچار ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ جس کارڈ سے مرکز میں قابض ہوئے تھے،وہی فارمولہ اتر پردیش کے اسمبلی الیکشن میں کام کرجائے گا لیکن وہ غلط سوچ رہے ہیں ۔مفتی اشفاق حسین قادری نے سرکار شریعت میں اگر کسی بھی طرح کی دخل اندازی کرے گی تو اسے منہ توڑ جواب دیاجائے گا۔ مفتی اشفاق حسین قادری نے کہا کہ مودی سرکار کی اس پہل کا اترپردیش کے الیکشن میں صوبہ کی ۲۵؍فیصد مسلمان اور ۳۰؍ فیصد دلت بھارتیہ جنتاپارٹی کو بہتر جواب دیں گے۔ مفتی صاحب نے کہا کہ جب ہر فرقہ پرست اور مذہب کے لوگوں کو اپنی ذاتی قانون، مذہبی کتاب، عقیدہ، بھروسہ اور روایت کے مطابق قانون ماننے کی چھوٹ ہے تو وہ صرف مسلمانوں کے طلاق کے مسئلے پر ہی پیچھے کیوں پڑی ہے ؟ مفتی اشفاق نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی صدر امت شاہ اور آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کو صرف ملک کو فرقہ پرستی کے سطح پر بانٹنا چاہتی ہے اور کسی بھی مذہب کے ذاتی قانون میں دخل اندازی کو بھی پسند نہیں کرتے۔ مفتی اشفاق نے کہا کہ تین طلاق یا یکساں سول کوڈ کے بہانے ملک کے مسلمان فرقہ پرستی ماحول نہیں بننے دیں گے۔مولانا شہاب الدین رضوی قومی جنرل سکریٹری جماعت رضائے مصطفےٰ نے کہا کہ درگاہ بریلی شریف نے اپنے رائے دی ہے جس میں ذمہ دار لوگوں کی میٹنگ میں یہ طے ہوا ہے کہ ہندوستان کے لاء کمیشن، قانون محکمہ یا مودی سرکار کو مسلمانوں کے ذاتی قانون میں دخل کا کوئی حق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بحث کے بہانے سے بھارتیہ جنتاپارٹی مانتی ہے کہ وہ صوبہ کا فرقہ وارانہ ماحول خراب کرکے فتح حاصل کرلے گی تو وہ خواب غفلت مبتلا ہے ،کیونکہ اترپردیش کی ۵۵؍فیصدی مسلمان اور دلت آبادی بی جے پی کے منصوبے جانتی ہے اور اگلے سال کے الیکشن میں اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے دیگر اقلیتیں یعنی عیسائی، جین سکھ، پارسی اور آدی واسیوں سے گزارش کی وہ بی جے پی کی اس منوبہ بندی کو کامیاب کرنے میں ان کاساتھ دیں کیونکہ یکساں سول کوڈ میں مسلم پرسنل لاء ہی نہیں بلکہ آدی واسی، دلت، عیسائی، جین، پارسی اور روایت بھی کچلے جائیں گے۔اعلیٰ حضرت یوتھ بریگیڈ کے قومی صدر مولاناافتخار حسین رضوی نے کہا کہ آج نام نہاد مہذب معاشرہ جس طلاق یا حلالہ پر اسلام کی تنقید کررہا ہے انہیں یہ عقل نہیں ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے شادی بعد بھی علیحدگی کا حق اسلام نے دیا ہے ۔ دنیا کے سبھی قانون اور سماج میں طلاق کا مشورہ اسلام کی بدولت ہے۔اگر شادی مرد یا عورت دونوں کے لئے جہنم بن جائے یا عورت پر مرد کے ظلم بے انتہا ہوجائیں تو طلاق بہتر اختیار ہے۔ اسلام نے شادی، طلاق ،وصیت اور بچوں کی ذمہ داری کو آسان بنایا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کی سورۂ نساء کی روشنی میں دیکھا جائے تو خواتین کو اسلام میں زیادہ آسانی اور اختیار دئے گئے ہیں لیکن یہ باتیں انہیں ہی سمجھ میں آتی ہیں جو مثبت رویہ سے سمجھیں گے اور جنہیں عوامی کتاب کی تاریخ کی پوری جانکاری ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلم خواتین کے حق کے نام پر وزیراعظم دراصل اپنے ووٹروں کو اشارہ دے رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو پریشان کرنے کے اپنے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ اس کا بہتر جواب اگلے سال کے اترپردیش کے اسمبلی الیکشن میں دیا جائیگا۔
دربار اہل سنت نئی دہلی کے چےئرمین اور معروف صوفی علماء سید جاوید علی نقشبندی نے کہا کہ نریندری مودی سرکار، بھارتیہ جنتاپارٹی اور آر ایس ایس سے نام نہاد مسلم چہروں کی خاموشی بتاتی ہے کہ انہیں مرکزی سرکار سے سماج کا سودا کر لیا ہے لیکن جس طرح ہر بار مسلم سماج نے اپنی سیاسی سمجھ کا تعارف دیا ہے ،وہ اترپردیش کے الیکشن میں اسی سمجھداری کا تعارف دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کے مسلم راشٹریہ منچ میں دراندازی(گھس پیٹھ) کر چلے وہابی ہی نہیں ہمیں ان نقلی صوفی نیتاؤں سے بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے جو مودی کے ساتھ دعوت اڑاتے ہیں اور یہ بھرم پھیلا تے ہیں کہ سماج ان کے اشاروں پر ووٹ دے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے لئے اس مشکل وقت میں نقلی صوفیوں کو بے نقاب کرنے ، بی جے پی کے پیسوں سے منعقدہ ان کی ریلیوں اور عوام مقبولیت مبرا ووٹ کاٹنے والے امیدواروں کا بائیکاٹ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی اور ان کے نام نہاد مسلم ساتھیوں کے بیچ فکس میچ چل رہا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ سماج کو بانٹ کر بی جے پی کو اترپردیش کی اقتدار میں بٹھا دیں گے لیکن عوام خوب سمجھدار ہے اور صوفی تو سیاسی رنگ سے بہت بیدار ہوچکے ہیں۔ صوفی اپنے براہ راست مخالف ہی نہیں بلکہ نقلی صوفیوں کو بھی بہتر پہچانتا ہے ۔کانگریس نیتا شہزاد پونے والانے کہا کہ ہندوستانی قوانین سے چلے گا، ہندوستان کو جو لوگ سنگھ کی شاخ سے چلانا چاہتے ہیں، وہ غلط فہمی میں نہ رہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوفی مسلمان سنی حنفی تشریح کے مطابق اپنے ذاتی قوانین کو ماننے کے لئے راضی ہیں۔ جن خواتین یا کئی معاملوں میں مردوں کو بھی طلاق سے جڑے مسئلوں پر ضروری مسئلوں پر ضروری ہو تو عدالت کی پناہ لینی پڑتی ہے اور عدالت کے فیصلے کا سبھی احترام کرتے ہیں لیکن جب سے مرکز میں نریندر مودی کی سرکار آئی ہے وہ لگاتار مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ مودی اور بھارتیہ جنتاپارٹی کی ملک کو آر ایس ایس کے ایجنڈے کے پلیٹ فارم پر لانا چاہتی ہے لیکن اس کی ہر کوشش کو ناکام کیا جائے گا اور ہندوستان میں ہر عقیدہ اور مذہب کے لوگوں کے ذاتی قوانین کو ناکام کی چھوٹ کو بچانے کے لئے ہندوستان کا مسلمان کوشش کرتا رہے گا۔ پونے والانے کہا کہ بھارتیہ جنتاپارٹی کی ملک کو آر ایس ایس کے ایجنڈے پر دھکیلنے کی ہر کوشش کو ناکام کیا جائے گااور ہندوستان میں ہر عقیدہ اور مذہب کے لوگوں کے ذاتی قوانین میں چھوٹ سے بچانے کے لئے ہندوستان کوشش کرتا رہے گا۔ پونے والا نے کہا کہ بھارتیہ لاء کے آرٹیکل ۴۴؍ کو بھی بھاجپائی اور آر ایس ایس کے لوگ اور حامی غلط طور سے پیش کررہے ہیں کیونکہ اس میں بھروسہ کی بنیاد پر ذاتی قوانین کے پریکٹس کی چھوٹ دی گئی ہے۔تنظیم کے صوبائی جنرل سکریٹری قاری صغیر احمد رضوی نے کہا کہ وزیراعظم نریندرمودی نے مسلم بہنوں کے نام نہاد مدد کرنے کے نام پر جس تین طلاق کا بیان دے کر بحث ملک کے سامنے لاکر رکھ دی ہے اس کا سیاسی جواب بھارتیہ جنتاپارٹی کو اتر پردیش اور پنجاب کے الیکشن میں دیاجائے گا۔ انہوں نے سبھی کلاس کے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ سیاست کو سمجھیں کہ اگر وہ تین بار طلاق کے بہانے اسلامی شریعت کے اس فیصلہ کو اگر آج مان لیں گے تو یہ آر ایس ایس کے یکساں سول کوڈ کے خواب کی شروعات ہے جس میں مسلمانوں کے بعد آدی واسیوں، دلت،جین، سکھ، عیسائی اور پارسیوں کا بھی نمبر آئے گا۔ انہوں نے دلت، پچھڑی ذاتیں اور سبھی اقلیتوں سے اپیل کی کہ وہ بی جے پی سے بوکھلا گئی ہے اور اس کی بوکھلاہٹ کو جہوری جواب ملنا بہت ضروری ہے ۔
مسلم اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن آف انڈیا کے قومی جنرل سکریٹری انجینئر شجاعت علی قادری نے اس موقع پر کہا کہ میں یکساں سول کوڈ کے خلاف ہیں اور ملک کا ہر مسلمان نے اس موقع پر کہا کہ میں یکساں سول کوڈ کے خلاف ہوں اور ملک کا ہر مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر ایک اقلتیں یعنی عیسائی، جین، سکھ، پارسی ہی نہیں بلکہ آدی واسی اور دلت بھی آرایس ایس کے اس گھٹیا ایجنڈے کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں جب برٹش قانون تھا اور آزادی کے ۷۰؍سال تک یکساں سول کوڈ کو مسلط کی بات نہیں ہوئی تو بھارتیہ جنتاپارٹی کے راج میں یہ بحث کیوں ہورہی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے علاوہ آدی واسی ،دلت ،عیسائی، جین ،سکھ اور پارسی بھی اس بات کو سمجھیں کہ یہ ملک کو برہمن واد پر دکھیلنے کی سنگھی سازش ہے جس کا ہر سطح پر احتجاج کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی سماجی استحصال کی تصور کو لاگو کرنا چاہتی ہے لیکن مسلمان، آدی واسی اور دلت ہی نہیں بلکہ دیگر اقلیتیں یعنی عیسائی، جین، سکھ اور پارسی بھی ملک کو آر ایس ایس کے ایجنڈے پر نہیں چلنے دیں گے۔اندور سے تشریف لائے پروفیسر عبدالحلیم خاں نے کہا کہ تقریباً تین سال سے اقتدار میں آئی نریندر مودی سرکار سماج سطح پر ناکام رہی ہے ۔ نہ وہ مہنگائی کم کرپائی ہے، نہ کرپش کم کرپائی ہے اور نہ ہی ملک میں بہتر قانون اور معاشی ڈھانچہ میں بہتری آئی ہے ۔ایسے میں لوگوں کو اسلام کے نام پر ڈراکر اقتدار میں بنے رہنا چاہتی ہے ۔پروفیسر نے کہا کہ بھارتیہ جنتاپارٹی جب سے اقتدار میں آئی ہے تب سے وہ ملک کو فرقہ پرستی کی بنیاد پر بانٹنا چاہتی ہے جبکہ اس کی اس کوشش کو میاب نہیں ہونے دیاجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس ملک میں ایک قانون کے بہانے ملک کے قانون ملک کے مسلمانوں کا ہی نہیں بلکہ دلتوں، آدی واسیوں، عیسائیوں، جین ،سکھ اور پارسیوں کا استحصال کر آر ایس ایس کا قانون نافذ کرنا چاہتی ہے ، جس کا ہر سطح پر احتجاج کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے ذاتی قوانین میں دخل اندازی دینے کی کسی کو کوئی حق نہیں ہے اور ہندوستان کے مسلمان آئین کے ذریعہ فراہم کردہ حق سے محفوظ ہیں۔
احتجاج کے بعد ہندوستان سرکار آئین کے ذریعہ فراہم کردہ لاء کمیشن کے نام پر میمورنڈم بھیج دیا جائے گا۔ مظاہرین نے کہا کہ ضروری ہوا تو اس مظاہرہ کو غیر میعاد احتجاج میں تبدیل کیا جائے گا۔ آپ کو بتادیں کہ اس سے پہلے تنظیم علمائے اسلام ہندوستان کے مشہور سنی صوفی تنظیموں نے پچھلی ۱۷؍اکتوبر کو دہلی کے جنتر منتر پر یکساں سول کوڈ کے خلاف زبردست احتجاج کیا تھا اور محکمہ قانون کو اپنی سفارشوں سے پہلے لی جانے والی رائے کو اسلام کے خلاف سازش بتاتے ہوئے اسے سنگھ کے ایجنڈے پر ملک کو دھکیلنے کی نیت بتایا تھا۔پروگرام کنوینر مولاناعبدالواحد خان رضوی نے کیا محمد مشاہد ملک نے مظاہرین اور مہمان کرام کا شکریہ ادا کیا۔ پروگرام میں سید انتظار علی، قاری رفیق، مولانا عباس، مولانا اشفاق میاں جانی، قاری فرقان، مولانا احمد رضا، قاری عزرائیل، مفتی تسلیم رضا، مولانا عالم، مفتی اقبال مصباحی، مولانا معراج عالم، مولانا رضوان خاں، مولانا عبدالسبحان نعیمی، مفتی منظم علی ازہری، مولانا کامل رضا، مولانا شمیم ، مولانا محمد عمر، قاری فردوس، مولانا مستقیم، قاری سلیم رضا، حافظ عمران، مولانا ندیم اختر، قاری محمد دین، مولانا ثناء اللہ، قاری باصر علی، قاری انور علی، مولانا ظہیر احمد ، مولانا غلام محمد، قاری معین، قاری شعبان، مولانا غلام مصطفےٰ نعیمی، مولانا عبدالوکیل، قاری ریحان، قاری الیاس برکاتی، مولانا صابرالقادری، قاری محمد قمر، قاری شکیل، قاری شادان، قاری شرافت علی، محمد عاقل بدایونی، مولانا محمد اکرم اور مولانا محمد نعیم ،مولانا حیدر وغیرہ کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود رہے۔پروگرام کا اختتام مولانا سید جاوید علی نقشبندی کی دعاء پر ہوا۔