ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ساحلی خبریں / ہریانہ اسمبلی انتخابات: امیدواروں کی فہرست جاری ہوتے ہی بی جے پی میں شروع ہوگئی بغاوت، دو اہم لیڈران نے پارٹی کو کیا خیر باد

ہریانہ اسمبلی انتخابات: امیدواروں کی فہرست جاری ہوتے ہی بی جے پی میں شروع ہوگئی بغاوت، دو اہم لیڈران نے پارٹی کو کیا خیر باد

Thu, 05 Sep 2024 17:36:35    S.O. News Service

چنڈی گڑھ، 5/ستمبر (ایس او نیوز /ایجنسی)  ہریانہ اسمبلی انتخابات کے قریب آتے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں شدید انتشار اور بغاوت کے آثار دیکھے جارہے ہیں ۔میڈیا رپورٹوں کی مانیں تو  بی جے پی کی طرف سے امیدواروں کی فہرست جاری ہونے کے بعد پارٹی میں اندرونی اختلافات کھل کر منظر عام پر آگئے  ہیں، جس سے پارٹی کے عہدیداروں اور مقامی لیڈران  میں بغاوت کے آثار اُبھرنے لگے ہیں۔

رپورٹوں کے مطابق بی جے پی کی جانب سے امیدواروں کی فہرست میں نام شامل نہ ہونے پر رتیا کے موجودہ رکن اسمبلی لکشمن ناپا نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ناپا نے ریاستی صدر موہن لال بڈولی کے نام تحریر کردہ اپنے استعفیٰ میں لکھا کہ وہ بی جے پی کی تمام  ذمہ داریوں سمیت ابتدائی رکنیت سے بھی  استعفی دے رہے ہیں۔ ان کا یہ فیصلہ بھگوا پارٹی کی جانب سے ہریانہ کے آئندہ اسمبلی انتخابات کے لیے رتیا اسمبلی حلقہ سے سرسا کی اپنی سابق رکن پارلیمنٹ سنیتا دگل کو میدان میں اتارے جانے کے ایک دن بعد لیا گیا ہے۔

دریں اثنا، بی جے پی کے اہم لیڈر سکھوندیر شیوران نے بھی پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ سکھویندر بوانی کھیڑا کے سابق ایم ایل اے رہ چکے ہیں اور فی الحال وہ ہریانہ بی جے پی کسان مورچہ کے صدر کے عہدے پر فائز تھے لیکن جیسے ہی بدھ کو بی جے پی کی جانب سے امیدواروں کے ناموں کا اعلان  ہوا، انہوں نے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔

خیال رہے کہ بی جے پی نے بدھ کو ہریانہ اسمبلی انتخابات کے لیے 67 امیدواروں کی اپنی پہلی فہرست جاری کی ہےجس میں کروکشیتر ضلع کے لاڈوا سے وزیر اعلیٰ نایاب سنگھ سینی کو میدان میں اتارا گیا۔ سینی، جنہیں  اس سال مارچ میں منوہر لال کھٹر  کی جگہ وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا، فی الحال وہ  کرنال سے ایم ایل اے ہیں۔

بی جے پی کی قیادت پر تنقید اور پارٹی کے اندر بغاوت کے آثار نے انتخابات کے تناظر میں پارٹی کے چیلنجس  کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈران اور ترجمان اس صورتحال کو سنبھالنے کے لیے کئی اقدامات کر رہے ہیں لیکن ان داخلی اختلافات نے انتخابات کی تیاریوں میں دشواری پیدا کردی ہے۔ یہ بغاوت اور لیڈران کے استعفے پارٹی کے اندرونی اختلافات اور قیادت پر بڑھتی ہوئی عدم اعتمادی  کو ظاہر کرتے ہیں، جس کا اثر انتخابی مہم اور پارٹی کی کارکردگی پر پڑ سکتا ہے۔


Share: