ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ساحلی خبریں / مغربی بنگال: 1000 کروڑ روپے کے 'ٹیب گھوٹالے' کی جانچ کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل

مغربی بنگال: 1000 کروڑ روپے کے 'ٹیب گھوٹالے' کی جانچ کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل

Sat, 16 Nov 2024 10:31:03  SO Admin   S.O. News Service

کولکاتا، 16/نومبر (ایس او نیوز /ایجنسی) مغربی بنگال میں ایک نیا مالی اسکینڈل سامنے آیا ہے جسے ’ٹیب گھوٹالہ‘ کہا جا رہا ہے۔ اس گھوٹالے کا تعلق اسکول کے طلبہ کو دیے جانے والے الیکٹرانک ٹیبلیٹس سے ہے۔ حکومت نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کولکاتا پولیس کے جوائنٹ کمشنر کی سربراہی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی ہے۔ الزامات کے مطابق اس گھوٹالے میں تقریباً 1000 کروڑ روپے کی خرد برد ہوئی ہے، جس کے بعد اپوزیشن نے حکومت پر شدید تنقید شروع کر دی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ اب تک ریاست کے تقریباً 15 اضلاع میں ٹیب گھوٹالہ کا جال پھیلا ہوا ہے۔ تحقیقات کے دوران بین ریاستی عناصر اس گھوٹالہ میں ملوث پائے گئے ہیں۔ پولیس سختی سے معاملے کی جانچ کر رہی ہے اور گرفتاریوں کا عمل بھی جاری ہے۔ اب وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کا اس معاملے میں بیان بھی سامنے آیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مہاراشٹر، راجستھان میں بھی اس طرح کے معاملے پیش آئے ہیں، لیکن ہم اس گروہ کو پکڑنے میں کامیاب رہے۔ ممتا بنرجی کا کہنا ہے کہ ایس آئی ٹی تشکیل دے دی گئی ہے، گرفتاری بھی ہوئی ہے اور جن لوگوں کو ٹیب کا پیسہ نہیں ملا ہے، انھیں جلد ہی ادائیگی کر دی جائے گی۔

واضح رہے کہ طلبا کے لیے مغربی بنگال حکومت کے سب سے بڑے منصوبوں میں سے ایک ’ترون کے سپنے‘ منصوبہ ہے۔ اس منصوبہ کے تحت ریاستی حکومت درجہ 11 اور 12 کے طلبا کو پڑھائی کے لیے ٹیپ خریدنے کے مقصد سے پیسے دیتی ہے۔ درجہ 11 اور 12 کے طلبا کو ٹیب خریدنے کے لیے ان کے بینک اکاؤنٹ میں 10 ہزار روپے دیے جاتے ہیں اور اس بار ٹیب خریدنے کے پیسوں کا گھوٹالہ کیے جانے کا الزام لگ رہا ہے۔

ریاست بھر میں درجہ 11 اور 12 کے 16 لاکھ سے زائد طلبا ہیں۔ اس ’ترون کے سپنے‘ منصوبہ پر تقریباً 1600 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ ریاست کے مختلف اضلاع میں کئی طلبا کو ان کے بینک اکاؤنٹ میں ’ترون کے سپنے‘ کے 10 ہزار روپے نہیں ملے۔ اس وجہ سے سیاسی ہنگامہ شروع ہو گیا۔ بنگیا ایجوکیشن کونسل کے جنرل سکریٹری سوپنل منڈل نے کہا کہ 16 لاکھ طلبا اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس بدعنوانی کے لیے انھوں نے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ایک رپورٹ میں بتایا جا رہا ہے کہ مرشد آباد کے سالار اسکول کی 15 طالبات کو ملنے والے ٹیب کے پیسے بہار کے کشن گنج میں ایک فرضی اکاؤنٹ میں چلے گئے۔ مرشد آباد ضلع کے دسویں اور گیارہویں درجات کے لیے الاٹ ٹیب کی رقم کچھ اسکولوں کو واپس کر دی گئی ہے، جس میں سے 17 اسکولوں کے 4881 طلبا کے اکاؤنٹس میں تقریباً 4 کروڑ 84 لاکھ روپے کی اضافی رقم جمع کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں مرشد آباد کے سالار اسکول کی 15 طالبات کی ٹیوشن فیس بھی بہار کے کشن گنج میں ایک فرضی اکاؤنٹ میں چلی گئی ہے۔

اسی طرح سے جھارگرام ضلع میں اسکولی طلبا کے ٹیب کے پیسے غائب ہو گئے ہیں۔ جھارگرام کے ضلع مجسٹریٹ سنیل اگروال نے بتایا کہ ضلع کے 11 ہائی اسکولوں کے 50 اکاؤنٹس میں سے 5 لاکھ روپے اڑائے گئے ہیں۔ جانکاری کے مطابق جھارگرام اشوک ودیاپیٹھ اسکول کے 8 طلبا کے پیسے غائب ہوئے ہیں۔ اسکول کے کارگزار پرنسپل پربھاس چندر دیہوری نے بتایا کہ اکاؤنٹ کی شناخت کر لی گئی ہے۔ جامتاڑا علاقہ میں ایک اکاؤنٹ ہے۔ جھارگرام ضلع کے اشوک ودیاپیٹھ، نیتاجی آدرش ہندی ہائی اسکول، روہنی سی آر ڈی ہائی اسکول، ہردا ہائی اسکول، باندھ گورا ہائی اسکول، مانک پارا ہائی اسکول، دھاگری ہائی اسکول، بن پور ہائی اسکول سمیت مجموعی طور پر 11 اسکولوں میں یہ واقعہ پیش آیا۔ مغربی مدناپور ضلع کے 450 اسکولوں میں سے 27 اسکولوں میں بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ پیش آیا ہے جہاں 165 طلبا کے اکاؤنٹ ہیک ہو گئے ہیں۔ یہاں سے ٹیب کے پیسے غائب ہو گئے ہیں۔ ضلع اسکول انسپکٹر سوپن سامنت نے کہا کہ ہم نے تحقیقات شروع کر دی ہے اور ایف آئی آر بھی درج کر لی گئی ہے۔


Share: