بنگلورو:4 /اپریل(ایس اونیوز /آئی این ایس انڈیا) سینئر کانگریس لیڈر اور سابق ریاستی وزیر جناب روشن بیگ نے مسلمانوں کے تئیں کانگریس کے رویے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کانگریس مسلمانوں کے بندھوا مزدور ہیں اور نہ ہی کانگریس کو ووٹ دینا مسلمانوں کی مجبوری ہے۔ آج یہاں ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جناب روشن بیگ نے کہا کہ پچھلے اسمبلی انتخابات میں اگر مسلمان متحد ہوکر کانگریس کا ساتھ نہ دیتے تو ریاست کے اقتدار پر آنے کی دور کی بات خواب وخیال میں سوچ نہیں سکتی تھی۔ لیکن مسلمانوں نے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانگریس کا ساتھ دیا تو انتخابات کے بعد کانگریس کی ریاستی قیادت نے سمجھ لیا ہے کہ مسلمان کانگریس کو ووٹ دینے پر مجبور ہیں۔ اور ان کے پاس کانگریس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں ریاست کے 28 میں سے محض ایک حلقے سے مسلم امیدوار کو ٹکٹ دینے پر اپنے شدید غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے جناب روشن بیگ نے کانگریس رہنماؤں کے اس استدلال کو مسترد کردیا کہ پارٹی نے مسلمان کو ٹکٹ اس لئے نہیں دیا کہ کوئی امیدوار جیت کا اہل نہیں تھا۔انہوں نے سوال کیا کہ کانگریس نے 21حلقوں میں جن امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے کیا وہ تمام کے تمام جیت جائیں گے؟۔ انہوں نے کہاکہ پچھلے چند دنوں سے نہ صرف ریاست میں بلکہ ملک کی سطح پر بھی کانگریس نے مسلمانوں کو حاشیہ پررکھ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ریاست کے کسی بھی معاملے میں کانگریس امور پر غالب قائدین نے مسلمانوں کو اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا، چاہے وہ ریاستی مخلوط حکومت کی رابطہ کمیٹی ہو یا پھر کانگریس کے دیگر فیصلہ ساز مشورے ان میں مسلم قائدین کو دانستہ طور پر نظر انداز کیا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ حال ہی میں صدر کانگریس راہل گاندھی اور سابق وزیراعظم دیوے گوڈا کی قیادت میں جب کانگریس جے ڈی ایس مشترکہ انتخابی مہم شروع ہوئی توجلسے میں کسی مسلم رہنما کو اہمیت نہیں دی گئی۔ پارٹی کی طرف سے جو تشہیری مواد تیار کیاگیا ہے اس میں صرف انہیں لیڈروں کی تصویریں شامل ہیں جو فی الوقت پارٹی امور پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ کانگریس قیادت نے اس مواد پر کسی مسلم رہنما کی تصویر شائع کرنا شاید اس لئے ضروری نہیں سمجھا کہ اسے خوف ہے کہ اسے ملنے والا ہندو ووٹ نہیں ملے گا۔ اگر کانگریس کا یہی رویہ ہے تو پھر اسے ظاہر کردینا چاہئے۔ مسلمان بھی کانگریس کے لئے مجبور نہیں ہیں، وہ بھی اپنا سیاسی فیصلہ لینے کا شعور رکھتے ہیں اور وقت آنے پر اس کا ثبوت بھی پیش کردیں گے۔ انہوں نے کہاکہ اب تک مسلمانوں نے صرف سیکولرزم کی خاطر کانگریس کا ساتھ دیا ہے، اور اب بھی یہی ارادہ رکھتے ہیں کہ سیکولرزم کی بقاء کے لئے کانگریس کی تائید کریں ، اگر کانگریس قیادت مسلمانوں کوحاشیے پر رکھ دینا چاہتی ہے تو پھر اس کی تائید کرنے کا کیا فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ ریاست میں ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ کانگریس نے مسلمانوں کو تین سیٹوں پر ٹکٹ دی ہے، ماضی میں یہ سیٹیں دھارواڑ ساؤتھ، بنگلور نارتھ اور گلبرگہ کی تھیں۔ دھارواڑ ساؤتھ سے ایف ایچ محسن چار مرتبہ منتخب ہوئے ، عزیزی سیٹھ ایک مرتبہ اور آئی جی سندی دومرتبہ منتخب ہوئے ہیں، اسی طرح گلبرگہ پارلیمانی حلقے سے قمر الاسلام اور اقبال احمد سرڈگی کا انتخاب ہوا۔ بنگلور نارتھ سے سابق مرکزی وزیر سی کے جعفر شریف مرحوم سات مرتبہ منتخب ہوئے، لیکن بدقسمتی سے اس کے بعد کوئی بھی مسلم نمائندہ کرناٹک سے لوک سبھا کے لئے منتخب نہیں ہوسکا۔اس بار جبکہ کانگریس اور جے ڈی ایس متحد ہ طور پر انتخاب لڑ رہے ہیں ۔ تو قع کی جارہی تھی کہ کانگریس قیادت اگر بنگلور سنٹرل اور بیدر سے یا پھر دھارواڑ سے مسلم امیدوار کو میدان میں اتارتی تو کچھ حد تک مسلمان مطمئن ہوتے، لیکن صرف بنگلور سنٹرل حلقے سے ایک امیدوار کو ٹکٹ دیاگیا اور باقی حلقوں میں مسلمانوں کو ٹکٹ دینے کا وعدہ کرنے کے باوجود کانگریس نے ان حلقوں میں ان طبقات کی طرف توجہ دی جنہوں نے پچھلے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو گھاس تک نہیں ڈالی۔ انہوں نے کہاکہ لنگایت طبقے نے پچھلے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو ووٹ ہی نہیں دیا۔ لیکن لوک سبھا انتخابات کو اس طبقے کو تین ٹکٹیں دی گئی ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ سدرامیا کا کروبا فرقہ جس کی آبادی 21لاکھ ہے اور تین حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ سدرامیانے اس طبقے کو تین ٹکٹیں دلائی ہیں ، جبکہ ایک کروڑ سے زیادہ کی آبادی والے مسلمانوں کے لئے صرف ایک ٹکٹ یہ ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے؟۔ انہوں نے کہاکہ یہ بات غلط ہے کہ مسلم قیادت نے ٹکٹ کے لئے کانگریس کی ریاستی اور مرکزی قیادت سے نمائندگی نہیں کی بلکہ بارہا سرکردہ کانگریس رہنماؤں نے ڈاکٹر کے رحمن خان کی قیادت میں کانگریس پارٹی سے یہ نمائندگی کی ہے کہ ریاست میں کم از کم تین مسلمانوں کو ٹکٹ ملنا چاہئے یا پھر کم سے کم دو کو تو ٹکٹ دیا جائے۔ یہ کہے جانے پر کہ کانگریس قیادت نے وعدہ کیا ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے بعد ایک مسلمان کو راجیہ سبھا سیٹ مل جائے گی۔ جناب روشن بیگ نے کہاکہ کانگریس کے ریاستی قائدین یہ سب چاکلیٹ دینا بند کردیں۔ دراصل پچھلے پندرہ سالوں سے لوک سبھا سے ریاست میں مسلمانوں کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ کانگریس قیادت کو یہ یقینی بنانا چاہئے تھاکہ زیادہ حلقوں سے مسلم امیدواروں کو موقع دے کر ان کی کامیابی کے لئے پارٹی بھی جدوجہد کرتی اور مسلم طبقہ بھی ۔ ایسا کرنے کی بجائے صاف طور پر کہنا کہ فلاں حلقے سے مسلمان نہیں جیتے گا۔ اور فلاں حلقے میں امیدوار طاقتور نہیں ہے ، ایسی صورت میں کیا کانگریس نے تمام حلقوں سے سیاسی سورماؤں کو میدان میں اتار دیاہے اور سب کے سب جیت جائیں گے۔ جناب روشن بیگ نے کہاکہ ہوسکتاہے کہ ان پر الزام لگایا جائے کہ وہ کانگریس سے اس لئے ناراض ہیں کہ انہیں ٹکٹ نہیں دیاگیا۔ایسا بالکل نہیں ہے۔ اگر انہیں ٹکٹ دیا بھی جاتا اور وہ صرف واحد امیدوار ہوتے تب بھی وہ پارٹی کے فیصلے پر اسی طرح کی ناراضی ظاہر کرتے ۔ انہوں نے کہاکہ ریاست بھر کے مختلف اضلاع کے اداروں اور انجمنوں نے ان سے رابطہ کیا ہے اور سب نے یہی ناراضی ظاہر کی ہے کہ آخر کانگریس نے مسلمانوں کو کیا سمجھ رکھا ہے۔ جس طرح کانگریس نے 28 میں سے ایک سیٹ دے کر اس کی حمایت کرنے والے طبقے سے دامن بچانے کی کوشش کی ہے اسے کانگریس کی طرف سے ذلت آمیز سلوک سمجھا جارہاہے۔ انہوں نے کہاکہ ریاست کی تاریخ میں آج تک کسی قوم نے صد فیصد متحد ہوکر کانگریس کا ساتھ نہیں دیا، لیکن پچھلے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں نے صد فیصد اتحاد کرکے کانگریس کی تائید کی ، اس کا صلہ کانگریس ذلت ورسوائی سے دیناچاہتی ہے۔ ریاست کا مسلمان کانگریس کے رویے سے سخت ناراض ہے، اور یہ واضح طور پر پیغام دینے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ کانگریس کا بندھوا مزدور نہیں ہے۔ انہوں نے ریاست کی موجودہ صورتحال کے لئے مٹھی بھر کانگریس لیڈروں بشمول سابق وزیراعلیٰ سدرامیا، اے آئی سی سی جنرل سکریٹری کے سی وینو گوپال اور کے پی سی سی صدر دنیش گنڈو راؤ کی من مانیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے کہاکہ بہت جلد وہ ریاست کی اس صورت حال سے آگاہ کرانے کے ساتھ مسلمانوں کے جذبات کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنا احتجاج درج کرنے کے لئے صدر کانگریس راہل گاندھی کو مکتوب روانہ کریں گے۔ اور اس کے ذریعے وہ بتائیں گے کہ کانگریس مسلمانوں کے لئے مجبوری نہیں ہے۔ وقت آنے پر وہ کانگریس کو بھی سبق سکھانا جانتے ہیں اور اس کا مزہ ماضی میں کانگریس نے چکھ بھی لیا ہے۔ اسی لئے کانگریس کے فیصلوں میں ریاست کے اتنے بڑے طبقے کو نظرانداز کردینے کا رجحان ختم کیا جائے۔ اور آنے والے دنوں میں ذمہ دار مسلم کانگریس رہنماؤں یاکابینہ میں نمائندگی کرنے والے مسلم وزراء ، اراکین پارلیمان و اسمبلی کو اعتماد میں لے کر فیصلے لئے جائیں۔