ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ساحلی خبریں / اقلیتوں کیخلاف بلڈوزر انارکی اورریاستی جبر ہے : کانگریس

اقلیتوں کیخلاف بلڈوزر انارکی اورریاستی جبر ہے : کانگریس

Sun, 25 Aug 2024 19:38:14    S.O. News Service

نئی دہلی، 25/ اگست (ایس او نیوز /ایجنسی ) مدھیہ پردیش کے چھتر پور میں نبی کریم ؐ کی شان  اقدس میں گستاخی کے خلاف مظاہرہ کرنے پر مسلمانوں  کے گھروں پربلڈوزر چلائے جانے کے واقعہ پر کانگریس نے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس کو بربریت اور ناانصافی قرار دیا ہے۔پارٹی نے  بی جےپی کی حکمرانی والی ریاستوں میں اقلیتوں کو بلڈوزر سے نشانہ بنائے جانے کو انارکی، ریاستی جبر اور عدلیہ کی نافرمانی سے تعبیر کرتے ہوئے اس کو ناقابل قبول بتایا۔کانگریس نے کہا کہ بلڈوزر کے ذریعہ آئین کی بے وقعتی اور شہریوں میں خوف وہراس پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ واضح رہےکہ نبی کریم  ؐ کی شان  میں گستاخی کرنے والے رام گیری  کے خلاف کیس درج نہ کرنے پر  مدھیہ پردیش  کےساگر ڈویژن کے چھتر پور میں   پولیس اسٹیشن کے باہر مسلمانوں کے احتجاج کی پاداش میں پولیس نے جہاں  ۵۰؍ نوجوانوں کو گرفتار کیا تھا  وہیں کانگریس کے  ایک مقامی مسلم لیڈر  کے کروڑوں کے بنگلے پر بلڈوزر چلا دیا تھا ۔ اس معاملے میںکانگریس کا رد عمل سامنے آیا ہے۔ 

 کانگریس صدر ملکا رجن کھرگے نے مدھیہ پردیش میں بلڈوزر کی کارروائی پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ کسی کے گھر کو گرانا اور اس کے خاندان کو بے گھر کرنا غیر انسانی اور غیرمنصفانہ ہے۔ انہوں نے ایکس پر لکھاکہ ’’بی جے پی کی حکمرانی والی  ریاستوں میں اقلیتوں کو بار بار نشانہ بنانا بہت پریشان کن ہے۔ قانون کی حکمرانی کے تحت چلنے والے معاشرے میں ایسی حرکتوں کی کوئی جگہ نہیںہے۔‘‘کھرگے نے مزید کہاکہ کانگریس پارٹی بی جےپی کی ریاستی حکومتوں کے ذریعہ آئین کی صریح بےوقعتی کی سخت مذمت کرتی ہے جہاں شہریوں میں خوف پیدا کرنے کیلئے بلڈوزر کو حربے کے طور پر استعمال کیا جارہاہے ۔ کانگریس صدر نے اس کو انصاف کی بجائے انارکی سے تعبیر کرتے ہوئے کہاکہ جرائم کا فیصلہ ریاستی سرپرستی میں جبر کی بجائے عدالتوں میں ہونا چاہئے۔

کانگریس کی جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی نے بھی بلڈزور کے ذریعہ انصاف کو ناقابل قبول قرار دیا۔ انہوںنے بھی ایکس پر لکھاکہ’’اگر کسی پر جرم کا الزام ہے تو صرف عدالت ہی اس کے جرم اور اس کی سزا کا فیصلہ کر سکتی ہے، لیکن الزام لگتے ہی ملزم کے گھر والوں کو سزا دینا، سر سے چھت چھین لینا، قانون کی پاسداری نہ کرنا، عدالت کی نافرمانی کرنا، الزام لگتے ہی ملزم کے گھر کو گرانا انصاف نہیں، یہ بربریت اور ناانصافی کی انتہا ہے۔‘‘پرینکا نے نام لئے بغیر بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہاکہ قانون بنانے، قانونی پیروی کرنے اور قانون کو توڑنے والے میں فرق ہونا چاہئے۔ حکومتیں جرائم پیشہ افراد کے جیسا برتاؤ نہیں کر سکتیں۔ قانون، آئین، جمہوریت اور انسانیت کی پاسداری مہذب معاشرے میں حکمرانی کی کم از کم شرط ہے۔‘‘انہوںنے مزید کہا کہ جو راج دھرم کی پیروی نہیں کرسکتا وہ نہ تو سماج اور نہ ہی ملک کو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔‘‘

  مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوز کیلئے عدلیہ کی خاموشی کو بھی ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ صحافی کاشف کاکوی نے نیشنل ہیرالڈ کیلئے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بلڈوزر کے خلاف مدھیہ پردیش کی مختلف عدالتوں میں کم ازکم ایک ہزار درخواستیں زیر التواء ہیں۔ سپریم کورٹ بھی اس ناانصافی کا نوٹس نہیں لے رہا ہے جہاں بلڈوزر کارروائی پر کئی تنظیموں کی درخواستیں زیر التواء ہیں اور انہیں سماعت کیلئے مقرر نہیں کیا جارہاہے۔ ادھرسپریم کورٹ میں ملک کے مسلمانوں کے مسائل سےمتعلق جمعیۃ علماء ہند( ارشد مدنی) کی متعدد درخواستیں زیرالتواء ہیں۔

  مدھیہ پردیش کے واقعہ پر عدلیہ کے ذریعہ کوئی نوٹس نہ لئے جانے کے ضمن میں جمعیۃ علماء  کے پریس سکریٹری مولانا فضل الرحمٰن قاسمی نے نمائندہ انقلاب کو بتایاکہ غیر قانونی بلڈوزر کارروائی کے خلاف جمعیۃ علماء نے۴؍اپریل ۲۰۲۲ءکو سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی، جمعیت علماء نے ان تمام ریاستوں کو فریق بنایا جنہوں نے غیر قانونی بلڈوزر کار روائی کر کے مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا تھا۔ اس معاملے میں اب تک۱۴؍ سماعتیں ہو چکی ہیں۔ سپریم کورٹ جلد ہی اس معاملے کی حتمی سماعت کرنے والا ہے۔ جمعیت علماء کی عرضی  پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے دہلی میں کی جارہی بلڈوزر کارروائی پر روک لگائی تھی۔

 واضح رہےکہ بلڈوزر کارروائی کے خلاف بروقت آواز بلند نہ کرنے پر مقامی مسلمان کانگریس  سے ناراض تھے اور سوشل میڈیا پر اسے سخت تنقید کا نشانہ بنارہے تھے۔ وہاں مقامی سطح پر کہا جارہا تھا کہ اگرکانگریس مدھیہ پردیش میں خود اپنے لیڈر کے گھر پر بلڈزور چلانے کے خلاف آواز بلند نہیں  کرسکتی اوراسے انصاف نہیں دلاسکتی تو ملک کے عام مسلمان اس سے کیا توقع کرسکتے ہیں۔کئی لوگوں نے کانگریس کے اقلیتی محکمہ کے غیر سرگرم کردار پر بھی سوال اٹھا یا ہے۔


Share: