جموں :04 /اپریل(ایس اونیوز /آئی این ایس انڈیا) پروفیسر سیف الدین سوزؔ، سابق مرکزی وزیر نے آج میڈیا کے نام جاری میں کہاہے کہ جب افسپا ء 10 نومبر 1990ء کولوک سبھا میں بحث کے لیے پیش کیا گیا تھا تو میں نے اُس وقت زبردست احتجاج کیا تھا اور اس فرسودہ قانون کی بل کواسپیکر کے سامنے پھینک دیاتھا۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ اس قابل مذمت قانون کی دفعہ (4)کے مطابق کوئی بھی سپاہی افسر یا مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر، گھروں کو جلا سکتا ہے، انسانوں کو مار سکتا ہے اور تباہی مچا سکتا ہے اور وہی کچھ برسوں سے کشمیر میں ہو رہا ہے!!جب میں نے لوک سبھا میں احتجاج کیا تھا تو بی جے پی کے نا خواندہ اور زبان دراز ممبروں نے مجھ کو انتہاء پسندوں کا حامی قرار دیا تھا۔ قابل صد افسوس بات یہ ہے کہ بی جے پی کی اس جہالت میں آج کے دن بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ اسی لئے وزیر دفاع سیتھا رمن کے دل میں اس بات کیلئے قرار پیدا ہو رہا ہے کہ اس ہولناک اور فرسودہ قانون کو جاری رکھنا چاہئے کیونکہ فورسز کو اس کی ضرورت ہے۔ میں ایسی سوچ کو رد کر تا ہوں۔ میں بی جے پی کے پروپگنڈا بازوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا اُن کو ابھی کے لوک سبھا کے الیکشن (2019ء)کے درمیان کشمیریو ں کی ہند یونین سے دوری اور زبردست ناراضگی نظرنہیں آئی؟میری نظر میں وزیر دفاع سیتھا رمن کو کشمیر کی حقیقت نظر نہیں آ رہی ہے۔ اُس کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اس سیاہ اور مذموم قانون کے ذریعے ہزاروں کشمیریوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا اور اُسی کے ساتھ یہ بھی ہوا ہے کہ کشمیریوں کے دلوں میں ہند یونین سے دوری اور زبردست ناراضگی پیدا ہو گئی ہے!!!اس پس منظر میں خوش آئند بات یہ ہے کہ کانگریس پارٹی نے اپنے منشور میں کشمیریوں کو یقین دلایا ہے کہ اس قانون میں بنیادی تبدیلی لاکر ایسا بنا دیا جائیگا جس میں انسانی حقوق کی حفاظت یقینی بن جائے گی۔“