کرناٹک میں نکسل ازم کے خاتمے کے حکومتی دعوے نے ریاست میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ مغربی گھاٹ کے گھنے جنگلات میں کئی دہائیوں سے جاری نکسل تحریک، جو خوف اور بدامنی کی علامت رہی ہے، اب ایک نئے دور میں داخل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں چھ نکسلی کارکنان کی خودسپردگی کے واقعے کو حکومت نے ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے، لیکن اس دعوے کے پس منظر میں کئی سوالات جنم لے رہے ہیں، جو حکومتی دعووں کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں۔
نکسل تحریک کی بنیاد 1967 میں مغربی بنگال کے ایک گاؤں، نکسل باڑی، میں رکھی گئی تھی، جہاں کسانوں نے جاگیردارانہ نظام کے خلاف بغاوت کی۔ یہ بغاوت جلد ہی ماؤ نواز نظریات کے زیر اثر مسلح جدوجہد میں تبدیل ہوگئی اور ہندوستان کے مختلف حصوں میں پھیل گئی۔ کرناٹک میں نکسل تحریک کا آغاز 1980 کی دہائی میں مغربی گھاٹ کے جنگلاتی علاقوں، جیسے چکمگلور، اڈپی، اور دکشن کنڑ، میں ہوا۔ یہ تحریک سماجی اور اقتصادی ناانصافیوں کے خلاف ایک ردعمل کے طور پر ابھری، جہاں غریب قبائلیوں اور کسانوں نے ماؤ نواز نظریات کے تحت بغاوت کا راستہ اختیار کیا۔ زمین کی ملکیت، وسائل کی غیر مساوی تقسیم، قبائلی مسائل، اور سماجی استحصال جیسے مسائل نے تحریک کو بڑھاوا دیا۔
2000 کی دہائی میں نکسل تحریک نے مزید شدت اختیار کی اور کئی پولیس افسران اور مقامی افراد کو نشانہ بنایا گیا۔ 2005 میں ایک انکاؤنٹر کے دوران نکسلی تحریک کے اہم رہنما ساکیت راجن کی ہلاکت اس تحریک کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوئی۔ تاہم، تحریک مکمل طور پر ختم نہ ہو سکی اور اپنی موجودگی کو برقرار رکھا ۔ پولیس کی مسلسل کارروائیوں اور حکومتی اقدامات کے باوجود یہ تحریک ریاست کے اندرونی علاقوں میں مضبوطی سے جمی رہی۔ ریاست میں تقریباً دو دہائیوں کے دوران پولیس اور نکسلیوں کی مڈبھیڑ میں تقریباً 37 ہلاکتیں ہوئی ہیں، جن میں 19 نکسلی، 8 عام شہری اور 10 پولیس اہلکار شامل ہیں۔
حکومت کرناٹک نکسل ازم کو ختم کرنے کے لیے مختلف حکمت عملی اپناتی رہی ہے۔ 2005 میں حکومت کے ذریعے سینئر افسر چرنجیوی سنگھ کی قیادت میں تشکیل دی گئی کمیٹی نے اعتراف کیا کہ نکسلی تحریک کے پیچھے سماجی و معاشی مسائل کارفرما ہیں۔ کمیٹی نے متاثرہ علاقوں کی ترقی کے لیے 66 کروڑ روپے جاری کرنے کی سفارش بھی کی تھی، لیکن عملی طور پر یہ فنڈ جاری نہیں ہو سکا۔ اس کے بعد دھرم سنگھ کی قیادت والی حکومت نے نکسلیوں کی باز آبادکاری کے لیے پیکیج کا اعلان کیا، مگر اس کے بھی عملی نتائج برآمد نہ ہو سکے۔ بعد میں سدارامیا کے پہلے دور حکومت میں نکسلی کارکنان کو ہتھیار ڈالنے کے لیے ترغیب دینے کی غرض سے ایک بحالی پیکیج متعارف کروایا گیا، جس کے تحت ہتھیار ڈالنے والے کارکنان کو مالی امداد، روزگار، اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ ان اقدامات کے تحت نور شری دھر اور سریمنے ناگراج جیسے نکسلی رہنماؤں کو مرکزی دھارے میں شامل کیا گیا۔ تاہم، حکومتی وعدے مکمل طور پر پورے نہ ہونے کے باعث یہ کوششیں مکمل کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔
حالیہ دنوں میں چھ نکسلی کارکنان کی خودسپردگی کو ریاست کی جانب سے امن کے قیام کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ 8 جنوری 2025 کو وزیر اعلیٰ سدارامیا اور نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار نے وزیر اعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ پر دستور ہند کی کاپیاں پیش کرتے ہوئے ان کارکنان کا خیر مقدم کیا اور انہیں ایک پرامن زندگی فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن مدد کا یقین دلایا۔ یہ خودسپردگی حکومت کے لیے ایک سیاسی کامیابی کے طور پر پیش کی جا رہی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس اقدام سے نکسل تحریک کے مکمل خاتمے کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے؟
بی جے پی نے اس عمل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت جنگلات سے نکسلائٹس کو نکال کر انہیں شہری نکسل میں تبدیل کر رہی ہے۔ کانگریس نے اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے بی جے پی پر الزام لگایا کہ اس نے اپنے دور حکومت میں نکسل تحریک کے خاتمے کے لیے کوئی مؤثر اقدام نہیں کیے، جبکہ موجودہ حکومت نے نکسلی کارکنان کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی ہیں۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ صرف چند کارکنان کی خودسپردگی نکسل تحریک کے خاتمے کی علامت نہیں ہو سکتی۔ نکسل ازم کے خاتمے کے لیے بنیادی سماجی و اقتصادی مسائل کو حل کرنا ضروری ہے، جو اس تحریک کے وجود کا سبب بنے۔ ماضی کے تجربات ظاہر کرتے ہیں کہ خودسپردگی اختیار کرنے والے نکسلی کارکنان اکثر حکومتی وعدے پورے نہ ہونے کی وجہ سے عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں ۔ اس بار، وزیر اعلیٰ سدارامیا نے نکسلائٹس کے لیے ایک نظرثانی شدہ بحالی پیکیج متعارف کروایا ہے، جس کے تحت نہ صرف ہتھیار ڈالنے والوں کو قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا بلکہ انہیں مالی امداد، تعلیم، اور روزگار کے مواقع بھی مہیا کیے جائیں گے۔ اگر یہ وعدے پورے کیے جاتے ہیں تو کرناٹک میں نکسل ازم کے خاتمے کا عمل مضبوط ہو سکتا ہے۔
کرناٹک میں نکسل ازم کے خاتمے کے لیے حالیہ اقدامات کو نکسلی سرگرمیوں سے متاثر دیگر ریاستوں، جیسے چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، مہاراشٹر، اور اڈیشہ، کے لیے ایک ماڈل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اگر حکومت اپنے وعدوں پر عمل کرے اور نکسلی کارکنان کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لیے مسلسل اقدامات کرے تو یہ ماڈل دیگر ریاستوں میں بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ یہ حکومتی دعویٰ اگرچہ امید کی کرن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، لیکن اس کی کامیابی کا انحصار حکومت کی نیت اور عمل پر ہوگا۔ نکسل تحریک کے خاتمے کے لیے صرف ہتھیار ڈلوانا کافی نہیں بلکہ ان علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کو عمل میں لانا، زمین کے حقوق کو یقینی بنانا، اور قبائلیوں کے بنیادی مسائل کو حل کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ کرناٹک کی موجودہ حکمت عملی ملک کے لیے ایک امید کا پیغام بن سکتی ہے، لیکن اس کا انحصار حکومتی وعدوں کی تکمیل اور عوامی مسائل کے حل پر ہوگا۔ اگر سماجی انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوۓ ترقیاتی منصوبے تیزی سے مکمل کیے جائیں اور قبائلیوں کے ساتھ انصاف کیا جائے تو یہ تجربہ نہ صرف کرناٹک بلکہ پورے ہندوستان کے لیے ایک مشعل راہ ثابت ہو سکتا ہے۔
(مضمون نگار معروف صحافی وتجزیہ نگار ہیں)