یہ کیسا منظرنامہ ہے جہاں ایک طرف ریاست کرناٹک میں پُرامن احتجاج کرنے والوں پر مقدمے درج کیے جاتے ہیں، اقلیتوں کے حقوق کے دن کو نظرانداز کیا جاتا ہے، اور دوسری طرف دھارواڑ میں سری رام سینا جیسی تنظیم کو چھ روزہ اسلحہ اور جنگی تربیتی کیمپ منعقد کرنے کی آزادی مل جاتی ہے؟ ہندوستان کے جمہوری اصول اور آئین ہمیں سب کے لیے مساوی حقوق، امن، اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ضمانت دیتے ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں شمالی کرناٹک کے دھارواڑ میں سری رام سینا کی جانب سے چھ روزہ تربیتی کیمپ کا انعقاد ان اصولوں پر سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔ اس کیمپ میں 186 نوجوانوں کو اسلحہ، ایر گن، تلوار بازی، لاٹھی چلانے، کراٹے، اور دیگر جنگی ہنر کی تربیت دی گئی۔ یہ واقعات کسی فلمی منظر سے کم نہیں لگتے، لیکن حقیقت میں یہ ہمارے سماج میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور تقسیم کے بیج بونے کی ایک خطرناک کوشش معلوم ہوتی ہے۔یہ تربیتی کیمپ، جو سری رام سینا کی قیادت میں منعقد ہوا، خود حفاظتی پروگرام کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ "حفاظت" کس سے اور کس کے لیے ہے؟ کیا یہ اقلیتوں کو دھمکانے اور ان کے حقوق کو پامال کرنے کی ایک منظم کوشش نہیں؟ سری رام سینا نے اس کیمپ کے انعقاد کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ہندو کارکنوں اور سماج پر ہونے والے حملوں پر ردِعمل کی تیاری ہے۔ تربیت تنظیم کے ریاستی صدر گنگادھر کلکرنی کی قیادت میں دی گئی۔سری رام سینا کے مطابق، یہ تربیتی کیمپ نوجوانوں کو مستقبل کے خطرات اور ہندو معاشرے پر ہونے والے حملوں سے نمٹنے کے لیے تیار کرنے کی غرض سے منعقد کیا گیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سرگرمیاں واقعی "خود دفاع" کے لیے ہیں یا کسی خطرناک ایجنڈے کا حصہ؟
کرناٹک میں کانگریس کی حکومت، جو خود کو اقلیتوں کے حقوق کی محافظ کہتی ہے، اس معاملے میں خاموش کیوں ہے؟ کیا یہ خاموشی حکومت کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے یا پھر یہ کسی سیاسی مصلحت کا نتیجہ ہے؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسی سرگرمیاں ایک جمہوری ریاست میں ہو رہی ہیں، جہاں قانون کی حکمرانی کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔حکومت کی خاموشی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ کیا حکومت اس معاملے سے لاعلم ہے؟ اگر لاعلم نہیں تو پھر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ کیا یہ خاموشی حکومت کی کمزوری کا مظہر ہے؟ کیا اقلیتوں کا تحفظ اور ان کے حقوق واقعی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں؟ یہ صورتحال اس وقت اور زیادہ تشویشناک ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ پُرامن احتجاجوں کو دبانے کے لیے مقدمے درج کیے جاتے ہیں، اور یوم اقلیتی حقوق جیسے اہم مواقع کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
سری رام سینا کا ماضی اور متنازعہ کردار : سری رام سینا کا ماضی تنازعات سے بھرا ہوا ہے۔ یہ تنظیم 2009 میں مینگلور کے پب حملوں، 2012 میں سندگی میں پاکستان کا پرچم لہرانے کی کوشش، اور دیگر فرقہ وارانہ کشیدگی کے معاملات میں ملوث رہی ہے۔ یہ واضح ہے کہ اس تنظیم کے اقدامات ہمیشہ فرقہ وارانہ ماحول کو خراب کرنے اور سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کے لیے کیے گئے ہیں۔ حالیہ تربیتی کیمپ ان کے اسی متنازعہ کردار کا ایک اور ثبوت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسی تنظیموں کو اسلحہ اور جنگی تربیت دینے کی اجازت کس نے دی؟ کیا یہ ممکن ہے کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان سرگرمیوں سے بے خبر تھے؟ایسے واقعات سماجی تانے بانے کو کمزور کرتے ہیں اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دیتے ہیں۔ اسلحہ اور جنگی تربیت کا مقصد صرف ایک مخصوص طبقے کو طاقتور بنانا نہیں، بلکہ اقلیتوں کو دھمکانا اور انہیں خوفزدہ کرنا بھی ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے واقعات کو روکے اور ان کے پیچھے چھپے مقاصد کو بے نقاب کرے۔ عوام کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا اور اس طرح کے عناصر کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی جو سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔قانونی ماہرین کے مطابق، کسی بھی غیر سرکاری تنظیم کو اسلحہ اور جنگی تربیت دینے کے لیے حکومت کی پیشگی اجازت درکار ہوتی ہے۔ یہاں سوال یہ ہیں کہ کیا سری رام سینا کے تربیتی کیمپ کو قانونی حیثیت حاصل ہے؟ کیا اس کے لیے پہلے سے منظوری لی گئی تھی؟ اگر ہاں تو کون سے قانون کے تحت دی گئی تھی؟ اگر نہیں، تو کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس معاملے میں کیوں خاموش ہیں؟ پُرامن احتجاجوں پر سختی اور بنیاد پرست تنظیموں کو کھلی چھوٹ کیوں دی جا رہی ہے؟ کیا یہ تربیتی کیمپ سماج میں مزید کشیدگی پیدا نہیں کریں گے؟
ہندوستان جیسے کثیرالمذاہب ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی ایک نازک دھاگے کی مانند ہے۔ اگر ایسے کیمپوں کو کھلی چھوٹ دی جائے تو یہ دھاگہ ٹوٹنے کا خطرہ ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت فوری اقدامات کرے تاکہ ملک کے سماجی تانے بانے کو برقرار رکھا جا سکے۔یہ واقعات اس بات کی علامت ہیں کہ ریاست میں قانون کی حکمرانی کمزور ہو رہی ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے کی فوری تحقیقات کرے اور عوام کو یہ یقین دلائے کہ ریاست میں کسی بھی طرح کی انتہا پسندی یا نفرت انگیزی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا فروغ ہی ملک کے مستقبل کا ضامن ہو سکتا ہے۔
دھارواڑ میں سری رام سینا کے تربیتی کیمپ نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس سمت جا رہا ہے۔ کیا ہم واقعی ایک جمہوری معاشرہ ہیں، یا ہم انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے گڑھے میں گر رہے ہیں؟ حکومت کی خاموشی اور سماج کی بے حسی نے اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت فوری طور پر اس معاملے کی تحقیقات کرے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ صرف اقلیتوں اور ان کے حقوق کا تحفظ ہی نہیں بلکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینا بھی حکومت اور عوام دونوں کی ذمہ داری ہے۔ اس طرح کے واقعات کو نظرانداز کرنا ہمارے معاشرے کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔
( مضمون نگار معروف صحافی و تجزیہ نگار ہیں)