دبئی ۱۶ جنوری (ایس او نیوز) : کئی مہینوں کے مذاکرات اور کشمکش کے بعد قطر، مصر اور امریکہ کی ثالثی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کا اعلان قطر کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے بدھ کو کیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ قطر کے وزیر اعظم نے بدھ دیر رات کو قطر میں ہی منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران تصدیق کی کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے اور معاہدے کا آغاز اتوار 19 جنوری سے ہو گا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی میڈیا رپورٹوں کے مطابق اسرائیل اور غزہ میں مختلف مقامات پر لوگ سڑکوں پر جشن مناتے نظر آئے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق، قطر کے وزیر اعظم نے معاہدے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ 19 جنوری سے نافذ العمل ہوگا اور پہلا مرحلہ 42 دنوں پر مشتمل ہوگا۔ انہوں نے کہا: ’’پہلے مرحلے میں حماس 33 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی، جن میں خواتین شہری، خواتین فوجی اور بچے شامل ہیں، ساتھ ہی بزرگ افراد بھی۔ اس کے بدلے میں اسرائیل میں قید فلسطینیوں کو رہا کیا جائے گا۔‘‘
یہ معاہدہ 15 ماہ کی جنگ کے بعد ہوا ہے جس میں دسیوں ہزار فلسطینی شہید اور بے گھر ہو چکے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کے روز کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان طے پانے والے تین مراحل کے معاہدے میں پہلے مرحلے کے طور پر "مکمل اور جامع جنگ بندی" شامل ہے، جبکہ دوسرے مرحلے میں "جنگ کے مستقل خاتمے" کا عزم کیا گیا ہے جو ابھی حتمی نہیں ہے۔
بائیڈن نے اپنے بیان میں کہا: "آج، کئی مہینوں کی امریکی سفارتکاری کے بعد، جو مصر اور قطر کے ساتھ مل کر کی گئی، اسرائیل اور حماس جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے پر متفق ہو گئے ہیں۔ اس معاہدے سے غزہ میں لڑائی ختم ہوگی، فلسطینی شہریوں کو بہت ضروری انسانی امداد فراہم کی جائے گی، اور قیدیوں کو 15 ماہ کی قید کے بعد اپنے خاندانوں کے ساتھ دوبارہ ملایا جائے گا۔"
معاہدے کی تفصیلات:
پہلے مرحلے میں چھ ہفتوں کی جنگ بندی شامل ہے، جس میں اسرائیلی افواج کو وسطی غزہ سے مرحلہ وار واپس بلایا جائے گا اور بے گھر فلسطینیوں کو شمالی غزہ واپس جانے کی اجازت ہوگی۔
ہر دن 600 ٹرک امدادی سامان غزہ میں داخل ہوں گے، جن میں 50 ٹرک ایندھن لے کر جائیں گے۔ شمالی غزہ کے لیے 300 ٹرک مختص کیے گئے ہیں۔
حماس 33 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی، جن میں تمام خواتین (فوجی اور شہری)، بچے، اور 50 سال سے زائد عمر کے مرد شامل ہیں۔ قیدیوں کی رہائی مرحلہ وار ہوگی، اور پہلے خواتین اور 19 سال سے کم عمر کے افراد کو رہا کیا جائے گا، اس کے بعد 50 سال سے زائد عمر کے مردوں کو۔ یہ عمل چھ ہفتوں میں مکمل ہوگا۔
اسرائیل ہر اسرائیلی شہری قیدی کے بدلے میں 30 فلسطینی قیدیوں اور ہر اسرائیلی خاتون فوجی کے بدلے میں 50 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔ اسرائیل تمام فلسطینی خواتین اور 19 سال سے کم عمر کے بچوں کو 7 اکتوبر 2023 کے بعد قید کیے گئے تمام افراد کو پہلے مرحلے کے اختتام تک رہا کرے گا۔ مجموعی طور پر رہائی پانے والے فلسطینیوں کی تعداد 990 سے 1650 کے درمیان ہو سکتی ہے۔
دوسرے مرحلے کے مذاکرات پہلے مرحلے کے 16 ویں دن شروع ہوں گے، جس میں باقی تمام قیدیوں، بشمول اسرائیلی مرد فوجیوں کی رہائی، مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی افواج کی مکمل واپسی شامل ہوگی۔
تیسرے مرحلے میں تمام باقی لاشوں کی واپسی اور غزہ کی تعمیر نو کا آغاز ہوگا، جس کی نگرانی مصر، قطر اور اقوام متحدہ کریں گے۔
معاہدے کی نگرانی:
معاہدے کے نفاذ کی ضمانت قطر، مصر اور امریکہ دیں گے۔ مذاکرات دوحہ میں ہوئے، جہاں جنگ بندی، قیدیوں کی رہائی اور فلسطینی قیدیوں کی آزادی کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔