صنعاء /ریاض 28دسمبر (آئی این ایس انڈیا) یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے انسانیت کے خلاف جرائم کی طویل فہرست میں ایک نیا اضافہ ہوا ہے۔ حوثیوں کی باقاعدہ سرکاری منظوری کے تحت ہونے والے اس جرم نے یمنی عوام میں شدید غم وغصے کی لہر دوڑا دی ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق یمن کی اب گورنری میں ایک شخص نے اپنی 8 سالہ بچی لیمن کو ایک دوسرے شخص کے ہاتھ فروخت کردیا۔ بچی کو بیچنے کے اس گھنائونی جرم میں حوثی ملیشیا کے سرکاری عہدیدار بھی ملوث ہیں جنہوںنے باقاعدہ طور پر بچی کو فروخت کرنے کا معاہدہ کرایا۔
تفصیلات کے مطابق اب گورنری کے یاسر عید الصلاحی نامی شخص نے اپنی 8 سالہ بچی لیمن کو محمد حسن علی الفاتکی نامی شخص کے ہاتھ محض دو لاکھ یمنی ریال میں فروخت کردیا۔ اگرچہ یمنی کرنسی میں یہ بڑی رقم ہے مگر حقیقت میں یہ بہت ہی معمولی ہے کیونکہ امریکی کرنسی میں یہ صرف 350 ڈالر کے برابر ہے۔
اس واقعے پر عوام میں شدید غم وغصہ پایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونےوالی تصاویر میں بچی کو اس کے والد کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جس شخص کو بیچا گیا ہے وہ بھی موجود ہے اور فریقین کے درمیان پانے والی سرکاری دستاویز بھی دیکھی جاسکتی ہے۔
عوامی حلقوں نے بچی کو فروخت کرنے کے واقعے کو غلامی اور انسانی تجارت کا سنگین جرم قرار دیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے یہ یہ واقعہ چونکہ حوثیوں کے زیرتسلط علاقے میں ہوا ہے اور اس کو قانونی شکل دینے کے لیے حوثیوں کی طرف سے دستاویز بھی جاری کی گئی ہے۔ اس لیے اس سنگین جرم کی تمام ذمہ داری حوثی ملیشیا پرعاید ہوتی ہے۔
دستاویز میں پتا چلا ہے کہ بچی کو فروخت کرنے کا واقعہ تازہ نہیں بلکہ یہ اگست 2019ء کا ہے۔ یمنی فیمنسٹ فویز کے ٹویٹر اکائونٹ پر پوسٹ کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بچی کو کھلے عام سرکاری سرپرستی میں فروخت کرنا انسانوں کو غلام بنانے کا ثبوت ہے۔
اس واقعے نے یمن میں ایران نواز حوثی ملیشیا کا قبیح چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔ بیان میں بچی کو فروخت کرنے والے اس کے والد کو بھی' مجر' قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ معاہدے کی دستاویز میں شامل تمام لوگ مجرم ہیں۔