ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ملکی خبریں / نائب صدر کی عدلیہ کے خلاف باتیں اپوزیشن کو پسند نہ آئیں، کپل سبل نے حکومت کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا

نائب صدر کی عدلیہ کے خلاف باتیں اپوزیشن کو پسند نہ آئیں، کپل سبل نے حکومت کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا

Sat, 19 Apr 2025 12:35:37    S O News

نئی دہلی، 19/ اپریل (ایس او نیوز /ایجنسی)نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکر نے جمعرات کو سپریم کورٹ پر جس انداز میں تنقید کی، اس پر اپوزیشن نے شدید ردعمل ظاہر کیا اور اسے ’’قابل اعتراض اور افسوسناک‘‘ قرار دیتے ہوئے عدلیہ کی توہین سمجھا۔ کانگریس کے سینئر لیڈر اور راجیہ سبھا کے رکن رندیپ سرجے والا نے نائب صدر کے بیانات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہندوستان میں آئین کو برتری حاصل ہے، نہ کہ کسی عہدے کو، چاہے وہ صدر جمہوریہ ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ سینئر ایڈووکیٹ اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کپل سبل نے بھی نائب صدر کے تبصرے پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے محض سیاست کی عکاسی قرار دیا۔ انہوں نے دھنکر اور ان کے حوالے سے بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 1974 میں اندرا گاندھی کے خلاف فیصلے کو تسلیم کیا گیا لیکن صدر جمہوریہ کو ہدایت دینے والے حالیہ فیصلے کو قبول نہیں کیا جا رہا۔

سپریم کورٹ کےبارے میں راجیہ سبھا کے چیئرمین کے بیان پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتےہوئے کپل سبل نے کہاکہ صدر اور نائب صدر کا عہدہ علامتی سربراہ کا ہے اور ان کےپاس کوئی ذاتی اختیار نہیں ہے۔  انہیں وزراء کونسل کے مشوروں اور مدد کا پابند بنایا گیا۔اگر ایگزیکٹو اپنا کام نہیں کر رہی ہے  تو عدلیہ کو مداخلت کرنی چاہیے۔مداخلت کرناعدلیہ کا حق اور ذمہ داری  ہے۔ سبل نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی اس ملک میں جمہوریت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ یاد رہے کہ  اسمبلیوں سے منظور شدہ بلوں پر غورکرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے ذریعہ گورنروں اور صدر جمہوریہ کیلئے  وقت کا تعین کرنے کو دھنکر  نے   عدلیہ کی’’سپرپارلیمنٹ‘‘ بننے کی کوشش قرار دیا ہے۔اس پر کپل سبل نے نے کہا کہ’’ اگر اسمبلی یا پارلیمنٹ کسی اہم قانون کو منظور کرتی جو ملک کیلئے بے حد ضروری ہے تو اس قانون کو روک کر بیٹھ جانا پارلیمنٹ کے دھنکر کے ذریعہ سپریم کورٹ کو آئین کے آرٹیکل ۱۴۲؍ کےتحت خصوصی اختیارات کو نیوکلیائی میزائل سے تعبیر کرنے کا جواب دیتے ہوئے  سبل نے کہا  کہ آرٹیکل۱۴۲؍ سپریم کورٹ کو کسی بھی معاملے میں ’مکمل انصاف‘ کو یقینی بنانے کیلئے  احکامات جاری کرنے کا خصوصی اختیار دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے بیانات سے ایسا لگتا ہے جیسے عدلیہ کو ’سبق‘ سکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آرٹیکل ۱۴۲؍ کے تحت سپریم کورٹ کو اختیارات آئین نے دیاکسی حکومت نہیں۔ کپل سبل نے کہا کہ جب جموں کشمیر میں آرٹیکل ۳۷۰؍ کی منسوخی پر سوال اٹھایا جاتاہے تو حکومت اپوزیشن کو جواب دیتے ہوئے سپریم کورٹ کا حوالہ دیتی ہے۔اسی طرح جب اجودھیا کے فیصلہ پر سوال کیا جاتا ہے تو حکومت اس کو سپریم کورٹ کا فیصلہ قرار دیتی ہے،لیکن جب اسی سپریم کورٹ کا فیصلہ حکومت کی سوچ کے مطابق نہیں ہوتا تو عدلیہ پرالزامات لگائے جاتے ہیں کہ یہ حد سے باہر  ہورہی ہے۔سبل نے کہا کہ دھنکر کے تبصرے پر انہیں کافی دکھ اور افسوس ہوا،کیونکہ عوام کا اگر کسی ادارے پر بھروسہ ہے تو وہ عدلیہ ہے۔ سینئر لیڈر اور سینئر ایڈوکیٹ  نے کہا کہ حکومت کو یہ لگتا ہے کہ جو فیصلہ اس کے مطابق نہیں ہے ،وہ غلط ہے اور جوفیصلہ اس کی سوچ کے مطابق ہے،وہ درست ہے۔ایک آئینی عہدے پر بیٹھے ایک شخص کو ایسی بات نہیں کہنی چاہئے۔  

 سرجے والا نے کہا کہ وہ نائب صدر کے اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتے کہ صدر کے اختیارات پر عدالتی نظرثانی غیر موزوں ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو بروقت، درست اور جرأت مندانہ قرار دیا جس میں صدر اور گورنروں کے اختیارات پر آئینی حدود کا اطلاق واضح کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ آئینی عہدہ جتنا بلند ہو، اس پر آئینی احتساب اور شفاف طرزِ عمل کی ذمہ داری اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ ان کے مطابق اگر صدر یا گورنر کسی قانون کی منظوری غیر معینہ مدت تک مؤخر کر سکتے ہیں تو یہ جمہوریت کی روح کے منافی ہوگا۔انہوں نے نائب صدر کے اس ریمارک پر بھی تنقید کی کہ عدلیہ کو قانون سازی یا انتظامی امور میں مداخلت کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔


Share: