بنگلورو، 16/فرور ی (ایس او نیوز /ناہید عطا اللہ)کرناٹک کے نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار اپنی سیاسی بصیرت اور متحرک قیادت کے لیے جانے جاتے ہیں۔ وہ گزشتہ 5 سالوں سے ریاستی کانگریس کے صدر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں اور ان کے پاس بنگلورو ترقی اور آبی وسائل کی وزارت کی بھی ذمہ داری ہے۔ ’ڈی کے‘ کے نام سے مشہور 62 سالہ شیوکمار نے اپنی سیاسی دعویداری پر کھل کر گفتگو کی، مگر وہ ہمیشہ پارٹی کے مفاد کو ذاتی خواہشات پر فوقیت دیتے ہیں۔ وہ صاف طور پر کہتے ہیں: "میرے لیے پارٹی سب سے پہلے ہے، باقی سب کچھ بعد میں۔ اگر پارٹی مضبوط ہے، تو ہم سب مضبوط ہیں۔"
8 بار رکن اسمبلی رہنے والے ڈی کے شیوکمار نے ناہید عطاللہ سے ایک خصوصی گفتگو میں کانگریس کی گارنٹی، مرکز سے فنڈ کی منتقلی، نئی تعلیمی پالیسی (NEP)، اور بی جے پی کی جانب سے ملنے والی پیشکشوں پر بات کی۔ یہاں بنگلورو میں ہونے والی اس ملاقات کے اہم نکات پیش کیے جا رہے ہیں…
ریاست میں کانگریس حکومت کی مدت کار نصف گزر چکی ہے۔ آپ حکومت کی کارکردگی کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
ہم نے اپنے انتخابی منشور میں جو بھی وعدہ کیا تھا، اسے ہم ایک ایک کر کے پورا کر رہے ہیں۔ اب بھی بہت سارے ایشوز کی طرف توجہ دی جانی باقی ہے۔ ریاستی بجٹ میں پانچ گارنٹیوں کے لیے 56 ہزار کروڑ روپے کی رقم مقرر کی گئی ہے۔ اوسطاً اگر 225 اسمبلی حلقوں میں 200 کروڑ روپے دیے جاتے ہیں تو ہم لوگوں کو مضبوط بنا سکیں گے۔ کسی بھی کسان کی خودکشی کی خبر نہیں آ رہی ہے اور ہمیں بہت مثبت رد عمل مل رہے ہیں، کیونکہ ہر کنبہ ’گرہ لکشمی‘ (کنبہ کی خاتون سربراہ کو 2000 روپے ماہانہ) اور ’گرہ جیوتی‘ (200 یونٹ تک مفت بجلی) کے ذریعہ سے 4 ہزار تا 5 ہزار روپے ماہانہ بچا رہا ہے۔ مفت چاول کی مقدار 5 کلوگرام سے بڑھا کر 10 کلوگرام فی ماہ کر دی گئی ہے۔ حکومت نے کبھی بھی کسی کو بھوکا نہیں رہنے دیا۔
مہاراشٹر جیسی بی جے پی حکمراں ریاستیں انتخابی وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں، لیکن کرناٹک نے ابھی تک کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ حالانکہ کچھ شکایتیں ہیں کہ پانچ گارنٹیوں کے لیے مقررہ 55 ہزار کروڑ روپے نے کرناٹک کے دیگر ترقیاتی کاموں میں رخنہ پیدا کیا ہے۔
دیگر شعبوں کے لیے بھی فنڈ جاری کیے جا رہے ہیں، چاہے وہ محکمہ تعمیرات عامہ ہوں یا شہری ترقی، آبپاشی یا سماجی فلاح۔ مثال کے لیے آبپاشی کے لیے 16 ہزار کروڑ روپے مقرر کیے گئے ہیں۔ پنچایت راج اور شہری مقامی بلدیہ ایکٹ ترمیمات کے تحت پیسہ سیدھے پنچایتوں کو بھیجا جاتا ہے۔ حکومت مداخلت نہیں کر سکتی۔
کیا وزیر اعلیٰ کو تقسیم پھر سے کرنا چاہیے؟
ہم گارنٹی نہیں روک سکتے اور روکیں گے بھی نہیں۔ ہم نے انھیں پہلے ہی پائپ لائن میں ڈال دیا ہے۔ ہمیں یہ یقینی کرنا چاہیے کہ جو لوگ معاشی طور سے مضبوط ہیں، وہ ان کا فائدہ نہ اٹھائیں۔
مزید کس طرح کی فکر ہے؟
تعلیم بڑی فکر ہے اور کرناٹک اس کی بہتری کے لیے پرعزم ہے۔ ہم نیشنل ایجوکیشن پالیسی (این ای پی) سے مطمئن نہیں ہیں اور اس میں تبدیلی کر رہے ہیں۔ اسی طرح ہم یو جی سی کے مسودہ اصولوں کی مخالفت کرتے ہیں جو وائس چانسلرز کی تقرری میں ریاستوں کے اختیارات کو چھیننا چاہتے ہیں۔ بیشتر میڈیکل اور انجینئرنگ کالج جنوبی ہندوستان میں واقع ہیں، اس لیے شمالی ہندوستان سے طلبا یہاں آتے ہیں۔ حالانکہ ہم قومی زبان کے حق میں نہیں ہیں اور اپنے بچوں کو مقامی زبان میں تعلیم دینا پسند کرتے ہیں، پھر بھی ہم اپنے طلبا کو عالمی سطح پر مقابلہ کے لیے تیار کرنے کے مقصد سے انگریزی میڈیم کے اسکولوں کو فروغ دے رہے ہیں۔
جنوبی ریاستیں مرکز کے ہاتھوں سوتیلا سلوک کی شکایت کرتی رہی ہیں، خاص کر مالی امور میں۔ کرناٹک کا تجربہ کیا ہے؟
کرناٹک بھی سوتیلے سلوک کا سامنا کر رہا ہے۔ مرکز کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ کرناٹک کی کی جتنی مدد کرے گا، اتنا ہی ہندوستان کو عالمی سطح پر فائدہ ہوگا۔ کرناٹک کی پوری دنیا میں دھاک ہے۔ اگر ہندوستان مضبوط ہونا چاہتا ہے تو اسے کرناٹک کی مدد کرنی چاہیے۔
آپ کے بھائی، سابق رکن پارلیمنٹ ڈی کے سریش نے کہا تھا کہ اگر اسی طرح سب چلتا رہا تو جنوبی ریاستیں الگ ملک کا مطالبہ کر سکتی ہیں؟
میرے بھائی نے فنڈ کی منتقلی کے بارے میں فکر کا اظہار کیا تھا۔ بنگلورو میں ’گلوبل انویسٹرس میٹ‘ (11 فروری 2025) کے افتتاح کے دوران مرکزی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے اعتراف کیا کہ کرناٹک ایسی ریاست ہے جہاں لوگوں کو اس کی تکنیک، جدت اور انسانی وسائل کے سبب سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔
بنگلورو کے انچارج وزیر کی شکل میں شہر کو عالمی منزل، ایک ٹیکنالوجی سنٹر اور اہم معاشی مرکز کی شکل میں قائم کرنے کے مقصد سے آپ کی ’برانڈ بنگلورو‘ پہل پر کیا پیش رفت ہوئی ہے؟
مجھے نہیں لگتا کہ میں پوری طرح کامیاب ہو پایا ہوں۔ چونکہ بنگلورو منصوبہ بند طریقے سے بسایا گیا شہر نہیں ہے، اس لیے اس کے لیے بہت سارے فنڈ کی ضرورت ہے۔ وزیر اعلیٰ سدارمیا نے تقریباً 40 ہزار کروڑ روپے کی گارنٹی دینے پر اتفاق ظاہر کیا ہے۔ ہم اس سال میٹرو ریل، ٹھوس ویسٹ مینجمنٹ، سڑکوں کی ٹنل، فلائی اوور اور کاروباری گلیاروں کے لیے ایک لاکھ کروڑ روپے سرمایہ کاری کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
بنگلورو کے لیے آپ کے پسندیدہ پروجیکٹ- ہیبل سے سنٹرل سلک بورڈ تک مجوزہ 18.5 کلومیٹر طویل ٹنل سڑک، این آئی سی ای روڈ کے پاس ایک اسکائی ڈیک، میٹرو-کم-روڈ فلائی اوور، بنگلورو میٹرو کا اس کے باہری علاقوں تک توسیع، منڈیا میں کے آر ایس باندھ کے پاس ایک ڈزنی لینڈ جیسا پارک بنانا، یہ سارے پروجیکٹ دقتوں کا سامنا کر رہے ہیں…
ان میں کوئی رخنہ نہیں ہے۔ میں اسکائی ڈیک کو روک رہا ہوں، کیونکہ دوسرے ہوائی اڈے کے لیے جگہ کو اب تک آخری شکل نہیں دی گئی ہے۔ ایئرپورٹس اتھارٹی آف انڈیا نے کہا ہے کہ دوسرا ہوائی اڈہ اسکائی ڈیک سے 20 کلومیٹر دور ہونا چاہیے۔