ڈاکٹر منموہن سنگھ کا نام ہندوستان کے سیاسی، اقتصادی، اور سفارتی افق پر ایک درخشاں ستارے کی مانند ہے۔ وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کو عوامی خدمت، ملک کی تعمیر، اور اقلیتوں کے حقوق کی بحالی کے لیے وقف کر دیا۔ ان کا عہد صرف ان کی قابلیت اور تدبر کی عکاسی نہیں کرتا بلکہ ہندوستان کی تاریخ میں ایک ایسے سنہری باب کی حیثیت رکھتا ہے جو ترقی، ہم آہنگی، اور انصاف کی روشن مثال ہے۔ڈاکٹر منموہن سنگھ 26 ستمبر 1932 کو گاہ (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے المیے نے ان کے خاندان کو جغرافیائی طور پر بے گھر کر دیا، لیکن ان کی ذہانت اور محنت نے ان کے خوابوں کو کبھی ماند نہیں ہونے دیا۔ اپنے ابتدائی تعلیمی سفر کے دوران انہوں نے محدود وسائل کے باوجود اسکالرشپ حاصل کی اور بین الاقوامی سطح کے اداروں، جیسے کیمبرج اور آکسفورڈ، سے تعلیم مکمل کی۔
کیمبرج یونیورسٹی میں انہیں "ایڈم اسمتھ پرائز" سے نوازا گیا، جو ان کے اقتصادی علم اور قابلیت کا اعتراف تھا۔ ان کی یہ تعلیمی کامیابیاں اس بات کی بنیاد بنیں کہ وہ بعد میں ایک ماہر اقتصادیات کے طور پر بین الاقوامی سطح پر پہچانے گئے۔
اقتصادی بحران میں امید کی کرن: ڈاکٹر منموہن سنگھ کی زندگی کا سب سے اہم موڑ 1991 کا وہ وقت تھا جب ہندوستان شدید اقتصادی بحران کا شکار تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے تھے اور معیشت جمود کا شکار تھی۔ اس وقت وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے ڈاکٹر سنگھ کو وزیر خزانہ مقرر کیا، اور یوں ان کی قیادت میں ہندوستان کی اقتصادی حالت کو بہتر کرنے کے لیے جو انقلابی اقدامات کیے گئے، وہ تاریخ کا حصہ بن گئے۔لبرلائزیشن، پرائیویٹائزیشن، اور گلوبلائزیشن جیسے اقدامات نے نہ صرف معیشت کو استحکام دیا بلکہ ہندوستان کو عالمی سرمایہ کاروں کے لیے ایک اہم مرکز بنا دیا۔ ڈاکٹر سنگھ کے فیصلوں کی وجہ سے صنعتی ترقی کی رفتار تیز ہوئی، اور ہندوستان کی آئی ٹی انڈسٹری نے دنیا میں اپنا مقام بنایا۔
ان کی پالیسیوں نے متوسط طبقے کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے اور دیہی علاقوں کی ترقی کے لیے نئے منصوبے شروع کیے گئے۔ ان کا یقین تھا کہ اقتصادی ترقی کا فائدہ صرف چند لوگوں تک محدود نہ رہے بلکہ ہر شہری تک پہنچے۔
اردو زبان اور ثقافت سے محبت: ڈاکٹر منموہن سنگھ کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو ان کی اردو زبان اور ادب سے گہری محبت تھی۔ وہ اردو کو صرف ایک زبان نہیں بلکہ ہندوستان کے ثقافتی ورثے کا ایک اہم جزو سمجھتے تھے۔ اپنے دور حکومت میں انہوں نے اردو زبان کے فروغ کے لیے کئی منصوبے شروع کیے، جن میں اردو اسکولوں اور لائبریریوں کی ترویج شامل تھی۔انہوں نے غالب، اقبال، اور میر کے اشعار کو اپنی تقاریر میں استعمال کرکے یہ ثابت کیا کہ ادب اور سیاست ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون ہو سکتے ہیں۔ ان کی تقاریر کو اکثر اردو رسم الخط میں تیار کیا جاتا تھا، جو اردو زبان کی اہمیت پر ان کے یقین کی علامت تھی۔
اقلیتوں کے حقوق کی جدوجہ:ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اقلیتوں کے حقوق کی بحالی کے لیے ہمیشہ مضبوط موقف اپنایا۔ 2006 میں قائم کی گئی سچر کمیٹی ان کے اس عزم کی مثال ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ نے ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار کو دنیا کے سامنے واضح کیا، جس کے بعد ان کی حکومت نے مسلمانوں کی ترقی کے لیے متعدد منصوبے متعارف کرائے۔تعلیم کے فروغ کے لیے اقلیتی تعلیمی اداروں کو مزید خودمختار بنایا گیا، جبکہ مسلمانوں کے لیے وظائف اور اقلیتی علاقوں میں بنیادی سہولتوں کے منصوبے شروع کیے گئے۔ ڈاکٹر سنگھ کا کہنا تھا، "اگر اقلیتیں ترقی کریں گی، تو ہندوستان ترقی کرے گا۔"ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں ہندوستان نے سفارتی سطح پر بھی اپنی پوزیشن کو مضبوط کیا۔ ان کی بردباری اور متانت نے انہیں عالمی رہنماؤں کے درمیان احترام کا مقام دیا۔ انہوں نے امریکہ، چین، اور روس جیسے طاقتور ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا اور ہندوستان کو ایک عالمی طاقت کے طور پر پیش کیا۔
ایک مدبر رہنما : ڈاکٹر منموہن سنگھ کی زندگی کی کہانی صرف ایک ماہر اقتصادیات کی کامیابیوں تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک ایسے رہنما کی تصویر بھی پیش کرتی ہے جو انسانی حقوق، اقلیتوں کے تحفظ، اور سماجی انصاف کے لیے اپنی جدوجہد میں منفرد تھا۔ ان کی قیادت نے ہندوستان کو ایک ایسے راستے پر گامزن کیا جو ترقی، مساوات، اور ہم آہنگی کی ضمانت دیتا ہے۔ڈاکٹر منموہن سنگھ ہندوستان کی سیاست میں شفافیت، دیانتداری، اور غیر متنازع قیادت کی ایک روشن مثال تھے۔ ان کی سیاست ہمیشہ نظریات، اصولوں، اور عوامی خدمت پر مبنی رہی۔ انہوں نے اپنی قیادت کے دوران کسی بھی فرقہ یا طبقے کے خلاف تعصب کا مظاہرہ نہیں کیا اور ہمیشہ قومی مفاد کو ذاتی یا سیاسی مفادات پر ترجیح دی۔ ان کے مخالفین بھی ان کی شرافت، متانت، اور نرم مزاجی کے معترف رہے۔ ڈاکٹر سنگھ کی شخصیت اس بات کی واضح عکاسی کرتی ہے کہ قیادت کا مقصد تنازعات کو ہوا دینا نہیں بلکہ ان کا حل نکالنا اور تمام برادریوں کے درمیان اتحاد و ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں ایک غیر متنازع رہنما کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کے یہ الفاظ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے:"ہمارے ملک کی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم اپنی تمام برادریوں کو مساوی مواقع فراہم نہ کریں۔"
ڈاکٹر منموہن سنگھ کی نرم مزاجی ان کی شخصیت کا خاصہ تھی، جو سیاست میں نایاب صفت سمجھی جاتی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ شائستگی، تحمل، اور وقار کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، چاہے حالات کتنے ہی چیلنجنگ کیوں نہ ہوں۔ ان کی یہ صفت نہ صرف ان کے سیاسی مخالفین کو قائل کرنے میں مددگار ثابت ہوئی بلکہ عوام کے دلوں میں ان کی عزت و احترام کو بھی بڑھایا۔ ان کا نرم لہجہ اور الفاظ کا انتخاب ہمیشہ لوگوں کے دلوں پر اثر چھوڑ جاتا تھا، جو انہیں ایک حقیقی رہنما کی حیثیت دیتا ہے۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کی موت صرف ایک شخص کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک عہد کا اختتام ہے۔ ان کا انتقال نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر کے ان تمام افراد کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے جو انہیں ایک مدبر، مخلص، اور شفاف قیادت کی علامت کے طور پر دیکھتے تھے۔
ان کی زندگی کا ہر لمحہ عوام کی خدمت، ملک کی ترقی، اور انسانی اقدار کے تحفظ کے لیے وقف تھا۔ وہ اپنی بردباری، متانت، اور سادگی کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ان کی شخصیت اس بات کی روشن مثال ہے کہ قیادت کا اصل مطلب اقتدار کے حصول کے بجائے قوم کی خدمت ہے۔
(مضمون نگار معروف صحافی وتجزیہ نگار ہیں)