ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / اسپیشل رپورٹس / کرناٹک میں قانون سازی کا فیصلہ، کیا نفرت کی سیاست پر لگام لگے گی؟ ۔۔۔۔۔۔۔از : عبدالحلیم منصور

کرناٹک میں قانون سازی کا فیصلہ، کیا نفرت کی سیاست پر لگام لگے گی؟ ۔۔۔۔۔۔۔از : عبدالحلیم منصور

Sat, 08 Feb 2025 12:53:41    S.O. News Service

نفرتوں کے تیر کھا کر دوستوں کے شہر میں
ہم نے کس کس کو پکارا، یہ کہانی پھر سہی
                                                  _مسرور انور

ہندوستان کی جمہوریت کو اگر کسی نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے تو وہ فرقہ وارانہ سیاست ہے، جو ہر گزرتے دن کے ساتھ گہری ہوتی جا رہی ہے۔ عوامی اجتماعات میں اشتعال انگیزی، سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ پروپیگنڈا، اور نیوز چینلز کی جانبدارانہ رپورٹنگ نے نفرت کو ایک عام رویہ بنا دیا ہے۔  اس پس منظر میں کرناٹک حکومت کا "نفرت انگیز تقاریر اور جرائم کے خلاف بل، 2025" امید کی ایک کرن بن سکتا ہے،ریاست کرناٹک میں نفرت انگیز تقاریر میں ہورہے اضافہ پر سپریم کورٹ کے نوٹس کے بعد حکومت کے ذریعے اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں بل کو پیش کرنے کی تیاریاں چل رہی ہیں ۔مگر اس کے عملی نفاذ پر کئی سوالات بھی کھڑے ہو رہے ہیں۔ اگر یہ قانون غیرجانبداری سے نافذ ہوا تو اس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ ملے گا، لیکن اگر اس کا اطلاق جانبدارانہ ہوا تو اس کے مثبت نتائج مشکوک ہو جائیں گے۔لیکن اگر یہ بھی مخصوص طبقے کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہوا تو پھر اس کا انجام بھی ان درجنوں غیر مؤثر قوانین جیسا ہی ہوگا جو کاغذ پر تو مضبوط نظر آتے ہیں، مگر عملی دنیا میں بے اثر ثابت ہوتے ہیں۔

ملک میں نفرت انگیزی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھیں تو سب سے زیادہ نقصان اقلیتوں کو ہوا ہے۔ 2014 کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات، سوشل میڈیا مہمات اور سرکاری سطح پر امتیازی سلوک میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کی رپورٹ کے مطابق 2014 سے 2023 کے درمیان نفرت انگیز تقاریر کے کیسز اور سوشل میڈیا پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی ویڈیوز اور پوسٹس میں کئی گنا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

باوجود اس کے کہ نفرت انگیز بیانات میں نمایاں اضافہ ہوا، ان کے مرتکب افراد کے خلاف کوئی مؤثر قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔ بیشتر مواقع پر حکومت اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ یہی وہ ماحول ہے جس میں کرناٹک حکومت کا یہ نیا قانون متعارف کرایا جانے والا ہے، اور اسی وجہ سے یہ جاننا ضروری ہو جاتا ہے کہ آیا واقعی یہ قانون تمام طبقات کے لیے یکساں ہوگا یا مخصوص حلقوں کو ہی نشانہ بنایا جائیگا ۔

  کرناٹک حکومت کا یہ بل نفرت انگیز تقاریر اور نفرت پر مبنی جرائم کو روکنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس بل کا مقصد معاشرے میں برداشت، احترام، اور باہمی تعاون کو بڑھانا ہے۔ یہ بل خاص طور پر مذہب،زبان، نسل، ذات، جنس، علاقائی وجنسی رجحان، اور دیگر بنیادوں پر ہونے والے جرائم کو نشانہ بناتا ہے۔  

اس بل میں نفرت انگیز تقاریر کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے، جس میں مذہبی، نسلی، اور سماجی گروہوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے بیانات شامل ہیں۔ نفرت انگیز تقاریر کے مرتکبین کو تین سال تک کی قید اور پانچ ہزار روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔ یہ سزائیں ناقابل معافی اور غیر ضمانتی ہوں گی۔ اس بل میں الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نفرت انگیز مواد کو بھی شامل کیا گیا ہے۔  نفرت انگیز تقاریر مختلف مذہبی اور نسلی گروہوں کے درمیان دشمنی کو ہوا دیتی ہیں، جس سے معاشرتی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔ ملک میں حالیہ برسوں میں نفرت انگیز تقاریر کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔نفرت انگیز تقاریر اکثر تشدد اور فسادات کا باعث بنتی ہیں۔ مثال کے طور پر، دہلی میں 2020 کے فسادات کے بعد بہت سے مسلمان اپنے تحفظ کے لیے مسلم اکثریتی علاقوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہوئے۔بدقسمتی سے، نفرت انگیز تقاریر کا استعمال سیاسی مفادات کے لیے  کیا جاتا ہے۔ بعض سیاسی جماعتیں اور افراد اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مذہبی جذبات کو بھڑکاتے ہیں، جس سے خاص طور پر مسلم کمیونٹی متاثر ہوتی ہے۔کرناٹک حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ قانون ریاست میں نفرت انگیزی پھیلانے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کو یقینی بنائے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ قانون سیاسی رہنماؤں اور شدت پسند تنظیموں پر بھی لاگو ہوگا؟ ماضی میں ایسے قوانین زیادہ تر کمزور طبقات کو دبانے کے لیے استعمال کیے گئے، جبکہ فرقہ وارانہ ماحول بگاڑنے والے بڑے سیاست دان اور مذہبی رہنما آسانی سے بچ نکلے۔ اگر واقعی کرناٹک حکومت اپنے ارادوں میں مخلص ہے تو اسے سب سے پہلے ان طاقتور عناصر کے خلاف کارروائی کرنی ہوگی جو کھلے عام نفرت پھیلاتے ہیں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب یا سیاسی جماعت سے ہو۔

ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں بھی اس قسم کے قوانین بنائے گئے، مگر ان کے نتائج زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوئے۔ مہاراشٹر میں نفرت انگیز تقاریر پر پابندی کا قانون موجود ہے، مگر وہاں جانبداری سے مخصوص فرقے کے خلاف سختی سے کارروائی کی گئی۔ مغربی بنگال میں بھی اسی نوعیت کے قوانین بنائے گئے، مگر سیاسی دباؤ کی وجہ سے اکثر کیسز دبا دیے گئے۔ اتر پردیش میں یوگی حکومت نے دعویٰ کیا کہ وہ نفرت انگیزی کے خلاف ایکشن لے رہی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ کارروائیاں زیادہ تر اقلیتوں کے خلاف ہوئیں۔

یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ صرف قانون سازی کافی نہیں، بلکہ اصل چیلنج اس کا غیرجانبدارانہ نفاذ ہے۔

اگر کرناٹک حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو اسے ہر قسم کے نفرت انگیز بیانیے کو روکنے کے لیے سخت اور مساوی رویہ اپنانا ہوگا۔ سوشل میڈیا پر جھوٹے بیانیے پھیلانے والے گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی، نیوز چینلز کی اشتعال انگیزی پر لگام لگانی ہوگی، اور ایسے سیاست دانوں کو بھی سزا دینی ہوگی جو الیکشن جیتنے کے لیے نفرت کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔سب سے ضروری یہ کہ اشتعال انگیز تقاریر کیلئے بدنام لوگوں کے اجلاس کو منظوری نہ دی جائے، اگر کسی جلسے میں اشتعال انگیزی ہو تو اس کیلئے منتظمین کو بھی ذمہ دار قرار دیا جانا چاہیۓ ، نفرت پھیلانے والوں کے خلاف شکایت درج ہونے کا انتظار کرنے کے بجائے پولیس کو رضاکارانہ طور پر پہل کرتے ہوۓ کارروائی کرنی چاہئیے ۔

عوام کو بھی اس قانون کی حقیقی اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔ اگر یہ قانون صحیح طریقے سے نافذ ہوا تو یہ ہندوستان کی جمہوریت کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے، اگر اسے مخصوص طبقات کے خلاف استعمال کیا گیا تو یہ مزید انتشار پیدا کرے گا۔ اس وقت ملک میں جو حالات ہیں، وہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ نفرت کی سیاست کو روکا جائے، کیونکہ اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو فرقہ وارانہ تقسیم اتنی گہری ہو جائے گی کہ اسے بھرنا ممکن نہیں ہوگا۔

اور یہ حقیقت ہے کہ امن و بھائی چارے کے بغیر معاشرے کی ترقی نا ممکن ہے۔

"دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے"
سبط علی صبا

کرناٹک حکومت کا یہ اقدام ایک بڑا فیصلہ ہے، مگر اس کی کامیابی کا دار و مدار اس کے غیرجانبدارانہ نفاذ پر ہوگا۔ اگر واقعی تمام طبقات پر برابر قوانین لاگو کیے گئے تو یہ ہندوستان میں ایک مثبت مثال بن سکتا ہے، لیکن اگر یہ بھی ایک سیاسی حربہ ثابت ہوا تو یہ قانون نفرت کو روکنے کے بجائے اسے مزید ہوا دینے کا سبب بن جائے گا۔

(مضمون نگار عبدالحلیم منصور کرناٹک کے معروف صحافی اور تجزیہ نگار ہیں)


Share: