لندن،28مارچ(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)برطانوی حکام کے مطابق ابھی تک ایسے کوئی بھی شواہد نہیں ملے ہیں، جن کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے گا کہ لندن میں حملہ کرنے والے خالد مسعود کا تعلق اسلامک اسٹیٹ یا القاعدہ سے تھا۔ اس دوران مسعود کی والدہ کو رہا کر دیا گیا ہے۔برطانوی حکام نے کہا ہے کہ ان کے خیال میں لندن میں گزشتہ ہفتے چار افراد کو ہلاک کرنے والے خالد مسعود کسی دہشت گرد تنظیم سے رابطے میں نہیں تھا۔ میٹروپولٹن پولیس کے نائب کمشنر نیل باسو نے صحافیوں کو بتایا کہ باون سالہ خالد مسعود کو جہاد میں دلچسپی تو تھی لیکن یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ اس نے اپنے منصوبے کسی دوسرے شخص پر عیاں کیے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ خالد مسعود نے یہ کارروائی تنہا کی تھی اور اس طرح کے مزید حملوں کا فی الحال کوئی خطرہ نہیں ہے۔
باسو کے مطابق ویسٹ منسٹر پل پر گاڑی کے ذریعے جس طرح پیدل چلنے والوں کو کچلنے کی کوشش کی گئی اور بعد میں پولیس اہلکار پر خنجر سے حملہ کیا گیا اسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسعود نے اس دوران کئی اہم پہلووں کا خیال نہیں رکھا، کوئی ماہرانہ تکنیک استعمال نہیں کی گئی اور بظاہر اس پر زیادہ رقم بھی خرچ نہیں کی گئی، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ خالد مسعود نے یہ کارروائی دیگر حملوں سے متاثر ہو کر کی ہے۔
اس دوران مسعود کی والدہ جینٹ آخایو نے اپنے ایک بیان میں اس واقعے پر شدید صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اپنے بیٹے کی اس کارروائی کی شدید مذمت کی، ’’جیسے ہی مجھے یہ پتا چلا کے اس حملے کے پیچھے میرا اپنا بیٹا ہے، تو میں نے اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں کے لیے بہت آنسو بہائے۔‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں یہ تو پتا چل چکا ہے کہ مسعود نے کہاں، کب اور کیسے یہ ظلم و ستم ڈھایا،’’ لیکن میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔‘‘