ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ریاستی خبریں / وزیر اعظم مودی نے رکھی اڑیشہ کے سنبل پور میں آئی آئی ایم کیمپس کی سنگ بنیاد

وزیر اعظم مودی نے رکھی اڑیشہ کے سنبل پور میں آئی آئی ایم کیمپس کی سنگ بنیاد

Sat, 02 Jan 2021 19:31:24  SO Admin   S.O. News Service

نئی دہلی،2؍جنوری (آئی این ایس انڈیا)وزیر اعظم نریندر مودی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ اڑیشہ کے سنبل پور میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (آئی آئی ایم) کے مستقل کیمپس کا سنگ بنیاد رکھا۔

مودی نے کہا کہ آئی آئی ایم کا نیا کیمپس اڑیشہ کو ایک نئی شناخت لائے گا۔ گزشتہ دہائیوں میں ملک نے ایک ٹرینڈ دیکھا۔ باہر کی ملٹی نیشنل کمپنیاں بڑی تعداد میں آئیں اورآگے بڑھ گئیں۔ یہ صدی نئے ملٹی نیشنل کی تعمیر کی رہی ہے۔

مودی نے کہا کہ ہندوستان کے کثیر القومی اداروں کو دنیا پر حاوی ہونا چاہئے، وقت آگیا ہے۔ ٹئیر 2، ٹئیر 3 شہروں میں آج اسٹارٹ اپ بن گیا ہے۔ آج کا اسٹارٹ اپ کل کا ملٹی نیشنل ہے۔ اس کے لئے نئے منیجر کی ضرورت ہے۔ آج کھیتی سے لے کر ہر شعبے میں اصلاحات کی جارہی ہیں۔ یہ ہم سب خصوصا نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ برانڈ انڈیا کو عالمی شناخت بنائیں۔وہ لوگ جو سنبل پور کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے، آئی آئی ایم کے قیام کے بعد یہ تعلیم کا ایک مرکز بن جائے گا۔ سب سے اہم بات یہ ہوگی کہ یہ پورا علاقہ ایک عملی لیب کی طرح ہوگا۔ اڈیشہ کا گورو ہیرا کانڈ ڈیم زیادہ دور نہیں ہے۔ سنبل پوری ٹیکسٹائل بھی دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس علاقے میں دستکاری کا بھی استعمال ہوا ہے۔ یہ علاقہ معدنیات اور کان کنی کی طاقت کے لئے بھی جانا جاتا ہے۔ ملک کے ان قدرتی اثاثوں کا انتظام کس طرح ہونا چاہئے، اس ملک کے عوام کو کس طرح ترقی دینی چاہئے، آپ کو اس کو لے کر کام کرنا ہے۔ جب آپ اڈیشہ کے مقامی لوگوں کے لئے کام کریں گے تو  خود انحصاری مہم خود بخود مضبوط ہوجائے گی۔

 2014 تک ہمارے پاس 13 آئی آئی ایم تھے، آج 20 ہیں۔ اب دنیا میں مواقع موجود ہیں تو پھر چیلنج بھی نئے ہیں۔ ڈیجیٹل رابطہ 21 ویں صدی کے کاروبار کو تبدیل کرنے جارہی ہے۔ ہندوستان نے بھی اس کے لئے اصلاحات کی ہیں۔ ہماری کوشش وقت کے ساتھ نہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھنے کی ہے۔ آج جتنا ہیومن مینجمنٹ ضروری ہے،اتنا ہی ٹکنالوجی کا انتظام بھی ضروری ہے۔ کورونا کے دوران ملک نے ماسک، پی پی ای کٹس، وینٹی لیٹروں کا مستقل حل نکالا۔اب ہم قلیل مدتی نہیں بلکہ طویل مدتی حل کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔


Share: