ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ساحلی خبریں / ایس ڈی پی آئی کے قومی صدر ایم کے فیضی کی گرفتاری کے خلاف کارکنان کا احتجاج؛ بی جے پی حکومت پر سیاسی انتقام کا الزام؛ بھٹکل میں بھی کارکنان نے کیا فوری رہائی کا مطالبہ

ایس ڈی پی آئی کے قومی صدر ایم کے فیضی کی گرفتاری کے خلاف کارکنان کا احتجاج؛ بی جے پی حکومت پر سیاسی انتقام کا الزام؛ بھٹکل میں بھی کارکنان نے کیا فوری رہائی کا مطالبہ

Wed, 05 Mar 2025 01:24:50    S O News
ایس ڈی پی آئی کے قومی صدر ایم کے فیضی کی گرفتاری کے خلاف کارکنان کا احتجاج؛ بی جے پی حکومت پر سیاسی انتقام کا الزام؛ بھٹکل میں بھی کارکنان نے کیا فوری رہائی کا مطالبہ

بھٹکل 4 مارچ (ایس او نیوز) پیردیر رات کو نئی دہلی ائرپورٹ پرسوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کے نیشنل صدر ایم کے فیضی کی گرفتاری پرسخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے منگل کو ملک کے مختلف علاقوں میں ایس ڈی پی آئی کے کارکنان نے احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے گرفتاری کی سخت مذمت کی ہے اوراپنے رہنما کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) کے ریاستی جنرل سکریٹری افسر کوڈلی پیٹ نے گرفتاری کو لے کر ریاست کرناٹک کے ہاسن میں ہوئے احتجاجی مظاہرے میں کہا کہ ایس ڈی پی آئی کے قومی صدر کی گرفتاری بی جے پی کی قیادت والی نریندر مودی حکومت کی اپوزیشن کو دبانے کی کوشش ہے، جس کا مقصد وقف ترمیمی بل کے خلاف ملک گیر تحریک کو دبانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ این ڈی اے حکومت، ای ڈی (انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ) اور این آئی اے (نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی) کا استعمال کرکے ہماری جدوجہد کو دبانے کی کوشش کررہی ہے مگر حکومت کی کارروائیوں سے ان کی جدوجہد کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہوگی۔

sdpi-faizi-protest-bhatkal-1

ایم کے فیضی کی گرفتاری کو مرکزی بی جے پی حکومت کی سیاسی انتقامی کارروائی قرار دیتے کوڈلی پیٹ نے کہا کہ حکومت جھوٹے الزامات لگا کر اور تحقیقاتی ایجنسیوں کا غلط استعمال کرکے جمہوری قوتوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایس ڈی پی آئی جو کہ ملک بھر میں سخت گیر وقف ترمیمی بل کے خلاف مظاہروں کی قیادت کر رہی ہے، اس کے خلاف کارروائی واضح طور پر حکومت کی عدم رواداری کو ظاہر کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کے غلط استعمال کے ذریعے ایس ڈی پی آئی کے قومی صدر ایم کے فیضی کی گرفتاری نریندر مودی حکومت کی ایک اور غیر جمہوری چال ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومت اپوزیشن کی آوازوں کو خاموش کر رہی ہے تو وزیر اعظم بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر کس طرح بھارت کو ایک جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟ اپوزیشن لیڈران کے خلاف مرکزی ایجنسیوں کے استعمال سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت جمہوریت سے آمریت کی طرف بڑھ رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں بھی قومی تحقیقاتی ایجنسیوں کی طویل تحقیقات کے باوجود اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے، پھر بھی انہیں حراست میں لیا گیا۔ 2014 سے، بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد، زیادہ تر سیاسی رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر، گرفتاریاں، چھاپے اور تحقیقات صرف اپوزیشن کے رہنماؤں پر ہی کی گئی ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جو رہنما بی جے پی میں شامل ہو جاتے ہیں، ان کے خلاف کسی بھی طرح کی تحقیقات نہیں کی جاتیں۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کانگریس میں تھے، تو سی بی آئی اور ای ڈی نے 2014-15 میں سَرَدا چٹ فنڈ اسکینڈل میں ان کے خلاف مقدمات درج کیے تھے، لیکن بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد وہ مقدمات ختم کر دیے گئے۔ اسی طرح، مغربی بنگال اسمبلی انتخابات سے قبل، ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے سابق رہنما شوبھندو ادھیکاری اور مکُل رائے کے خلاف کرپشن کے الزامات میں ای ڈی اور سی بی آئی کی تحقیقات جاری تھیں، لیکن بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد ان پر سے مقدمات ختم ہو گئے۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ بی جے پی کس طرح تحقیقاتی ایجنسیوں  کو سیاسی انتقام کے  طور پراستعمال کر رہی ہے۔

ایم کے فیضی کی گرفتاری کو لے کر ہاسن کے ساتھ ساتھ کرناٹک کے ساحلی شہر مینگلور اور بھٹکل کے ساتھ جنوبی ہند کی ریاست کیرالہ کے کئی شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے کئے گئے ہیں اور گرفتار ایم کے فیضی کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

sdpi-faizi-protest-udupi-1

Share: