منگلورو 19 / اپریل (ایس او نیوز) مرکزی حکومت کی طرف سے لائے گئے وقف ترمیمی قانون کے خلاف کرناٹکا علماء فیڈریشن کے زیر اہتمام شہر کے مضافات اڈیار میں واقع شا گارڈن میں ایک زبردست احتجاجی مظاہرہ کا انعقاد ہوا ۔
دکشن کنڑا کے ڈسٹرکٹ قاضی تقویٰ احمد موصلیار اور اڈپی مشترکہ قاضی عبدالحمید موصلیا کی قیادت میں منعقد کیے گئے اس احتجاج میں دکشن کنڑا کے کونے کونے سے عوام کا جم غفیر شریک ہوا ۔ اس کے علاوہ اڈپی، کوڈاگو اور چکمگلورو سے بھی ہزاروں افراد نے احتجاج میں شرکت کی ۔ احتجاجی مظاہرین میں مسلم سماجی و مذہبی اداروں اور تنظیموں کے ذمہ داران اور کارکنان پورے جوش و خروش کے ساتھ شریک رہے ۔
احتجاجی مظاہرین نے ترنگا جھنڈا لہراتے ہوئے اڈیار میں شا گارڈن تک پہنچنے کے لئے نیشنل ہائی وے کے علاوہ نیتراوتی کو کشتیوں کے ذریعے پار کیا ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ عوام کا ایک سمندر امڈ پڑا ہے ۔ مظاہرین نے وقف ترمیمی قانون کے خلاف نعروں والے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس کا مرکزی نکتہ یہی تھا کہ یہ قانون دستور میں دخل اندازی اور اس کے ذریعے فراہم کیے حقوق پر ناجائز قبضہ کرنے کے مترادف ہے ۔ اس قانون کو واپس لینے تک احتجاج جاری رکھنے کی بات بھی پلے کارڈز سے ظاہر ہو رہی تھی ۔ اس کے علاوہ "آزادی آزادی" کے نعرے بھی لگائے گئے ۔
احتجاجی جلسہ کا آغاز علامہ اقبال کی نظم سے ہوا۔ دکشن کنڑا ضلع قاضی تقویٰ احمد موصلیار نے کہا کہ وقف مسلمانوں کا حق ہے ۔ فاشسٹ طاقتوں کو کسی قیمت پر اسے چھیننے نہیں دیا جائے گا ۔
وقف کمیٹی کے سابق صدر شافی اسدی نے کہا کہ ہمیں قانونی نظام پر ناز ہے ۔ سپریم کورٹ نے اس وقت عبوری طور پر بلڈوزر چلانے والوں کی ہوا نکالنے کا کام کیا ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ 5 مئی کو اس پر پوری طرح لگام لگے گی اور سیکولر اور جمہوری نظام کا بول بالا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کسی تنظیم ، دھرم یا پارٹی کے خلاف نہیں ہے ۔
کرناٹکا علماء فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری عثمان غنی نے کہا کہ وقف کے معاملے میں دخل اندازی کرنے کا حکومت کو کوئی اختیار نہیں ہے ۔ ہم نے کبھی کسی ہندو کا حق نہیں چھینا ہے ۔ ہم صرف ہمارا حق مانگ رہے ہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ سے ہمیں انصاف ملے گا ۔
کرناٹکا علماء فیڈریشن کے ڈائریکٹر عبدالقادر موصلیار نے کہا کہ اس سے قبل حکومت نے سی اے اے ، این آر سی جیسے قوانین لانے کی کوشش کی تھی تو مسلمانوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا تھا ۔ اب وقف کے معاملے میں ملک بھر میں مسلمان احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں ۔ مرکزی حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہیے ۔ اُس وقت مغربی بنگال کی ممتا بنرجی نے این آر سی جاری نہ کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ اب انہوں نے بڑی جرات دکھاتے ہوئے وقف ترمیمی قانون کو بھی لاگو نہ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اب یہی جرات دیگر ریاستوں کی سکیولر حکومت کو بھی دکھانی چاہیے ۔
پورے احتجاجی جلسے کے دوران بہترین نظم و ضبط کا مظاہرا دیکھنے کو ملا ۔ دور دراز مقامات سے آنے والے مظاہرین کے لئے منتظمین نے قریبی مساجد میں کھانے پینے کا بھی انتظام کیا تھا ۔ جمعہ کے نماز کی ادائیگی کے بعد وقت سے پہلے ہی متعینہ میدان مظاہرین سے بھر گیا ۔
احتجاجی مظاہرے میں غیر معمولی بھیڑ ہونے کے امکان کو سامنے رکھ کر پولیس نے سخت حفاظتی بندوبست کیا تھا ۔ جس میں کے ایس آر پی، آرمڈ پولیس، ریزرو پولیس وغیرہ کو بھی شامل رکھا گیا تھا ۔
ابتدا میں پولیس نے دوپہر بارہ بجے سے رات نو بجے تک نیشنل ہائی وے 73 کو بند رکھنے کا اعلان کیا تھا، لیکن اس علاقے کے باشندوں نے اسے ہائی کورٹ میں چیلینچ کیا تو عدالت نے پولیس کے اس فیصلے باطل قرار دیا ۔ احتجاج کے آنے والے ہجوم کی وجہ سے ہائی وے پر جام لگ گیا اور سیکڑوں مظاہرین میدان تک پہنچ بھی نہیں سکے ۔