کاروار، 6 / مارچ (ایس او نیوز) ایسا لگتا ہے کہ اتر کنڑا کے سینئر اور تجربہ کار سیاست دان آر وی دیشپانڈے نے برسراقتدار پارٹی کے اہم لیڈر ہونے کے باوجود پارٹی اور ریاستی سیاست سے اپنے آپ کو الگ تھلگ کر لیا ہے، کیونکہ وزیر اعلیٰ کو بدلنے، کے پی سی سی صدر کو بدلنے، ڈپٹی چیف منسٹر کو بدلنے جیسی باتیں، مطالبے اور افواہیں آئے دن چلتی ہیں مگر کسی کی حمایت یا مخالفت میں دیشپانڈے کی زبان سے ایک جملہ بھی سننے کو نہیں مل رہا ہے ۔
ریاست اور خاص کر ضلع کے سیاسی گلیاروں میں دیشپانڈے کی اس خاموشی کے تعلق سے چہ میگوئیاں تو ہوتی رہتی ہیں مگر کوئی ٹھوس اور حقیقت پر مبنی بات سامنے نہیں آ رہی ہے ۔ 2023 کے اسمبلی الیکشن کے دوران کانگریس کے پارٹی کے معمر اور بااثر سیاست دان ہونے کے ناطے دیشپانڈے کا نام وزیر اعلیٰ کی کرسی کے ساتھ جوڑا جا رہا تھا ۔ ادھر خود دیشپانڈے کو یقین تھا کہ انہیں کم از کم وزارتی قلمدان اور ضلع انچارج وزیر کی ذمہ داری ملنا تو طے ہے ۔ مگر جب الیکشن ختم ہوا اور پارٹی برسراقتدار آئی تو کے پی سی سی صدر ڈی کے شیوا کمار نے دیشپانڈے کو کنارے لگا دیا اور بھٹکل اسمبلی حلقہ سے دوسری مرتبہ منتخب ہونے والے منکال وئیدیا نے بازی مار لی ۔
ظاہر ہے کہ اس سے دیشپانڈے کی دل شکنی ہوئی ہوگی اور کچھ عرصہ تک ان کے رویے سے ناراضگی جھلکتی رہی، لیکن انہوں نے مخالفانہ بیان بازی کا راستہ نہیں اپنایا ۔ بس وزیر منکال وئیدیا کی میٹنگوں اور پروگرام سے دور دور رہے ۔ پھر پارلیمانی الیکشن کے دوران دیپشانڈے نے منکال وئیدیا کے ساتھ مل کر اپنی پارٹی کی امیدوار کو جیت دلانے کے لئے جی جان سے محنت کی ۔ سمجھا جا رہا تھا کہ دیشپانڈے کو الیکشن کے بعد کابینہ کی توسیع کے دوران کایا پلٹ ہونے اور وزارتی قلمدان منکال کے ہاتھوں سے نکل کر ان کے قبضے میں آنے کی قوی امید تھی ۔ لیکن وقت کی ستم ظریفی یہ ہوئی کہ الیکشن کا نتیجہ منفی نکلا اور کابینہ کی توسیع کا معاملہ ٹلتا چلا گیا ۔
اس پس منظر میں صاف محسوس کیا جا رہا ہے کہ ڈھلتی عمر اور بڑھتے سیاسی تجربے والے آر وی دیشپانڈے نے پارلیمانی الیکشن کے بعد سے پارٹی یا سیاسی معاملات پر پوری طرح اپنی زبان بند کر رکھی ہے ۔ اس تعلق سے الگ رائے اور تبصرے سننے کو ملتے ہیں ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دیشپانڈے نے کسی بڑے مقصد کو پانے کے لئے فی الحال خاموشی اختیار کر رکھی ۔ کچھ کہتے ہیں کہ وہ اپنی ڈھلتی عمر کے ساتھ مزید سیاسی امنگوں کے متحمل نہیں رہے ۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ خاموشی دیشپانڈے کی پالیسی کا حصہ ہے ۔ کیونکہ ایک طرف ریاستی وزیر اعلیٰ کے لئے جلد ہی ریاستی کابینہ کی توسیع کرنا ناگزیر ہو جائے گا، دوسری طرف وزارت اعلیٰ کی کرسی بھی تبدیلی کا شکار ہو سکتی ہے ۔ اس وجہ سے تب تک صبر کرنا اور خود کو کسی تنازعے سے دور رکھنا دیشپانڈے کے لئے فائدہ مند ہوگا ۔
بہر حال وجوہات جو بھی ہوں، سیاسی نشیب و فراز کے ہر زاویے سے گزرنے اور ایک عرصے سے اپنی سیاسی پکڑ بنائے رکھنے والے سیاسی میدان کے ماہر کھلاڑی آر وی دیشپانڈے کی خاموشی کا راز بدلتے سیاسی منظر نامے میں جلد ہی کھل کر سامنے آنے کی توقع کی جا سکتی ہے ۔