مقبوضہ بیت المقدس،16مئی(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)فلسطین میں یہودی توسیع پسندی اور آباد کاری کے حامی امریکی یہودی ڈیوڈ فریڈ مین نے اسرائیل پہنچنے کے بعد اپنی اسناد اسرائیلی صدر رؤف ریفلین کو پیش کی ہیں جس کے بعد وہ آج اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ فلسطین میں یہودی آباد کاری کے حامی ڈیوڈ فریڈ مین کا اسرائیل میں امریکی سفیر کے طور پر نام تجویز کیے جانے پر ایک نئی بحث چھڑ گئی تھی۔ فریڈ مین کی اسرائیل میں امریکی سفیر کی تعیناتی کو صدر ڈونلد ٹرمپ کی تل ابیب کے لیے اپنی نئی پالیسی کا عکاس قرار دیا جا رہا ہے۔اسرائیلی وزارت خارجہ نے ڈیوڈ فریڈ مین کے تل ابیب پہنچنے اور امریکی سفیر کی ذمہ داریاں سنھبالنے کی تصدیق کی ہے۔فریڈ مین آج اپنی اسناد اسرائیلی صدر کو پیش کریں گے جس کے بعد ان سے باضابطہ طور پر حلف لیا جائے گا۔
خیال رہے کہ ڈیوڈ فریڈ مین ایک سخت گیر امیرکی یہودی ربی کا بیٹا اور پیشے کے اعتبار سے وکیل ہے۔ فریڈ مین نے فلسطین، اسرائیل تنازع کے دو ریاستی حل کو مشکوک قرار دینے کے ساتھ ساتھ اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی کی بھی حمایت کی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنی صدارتی مہم کے دوران اسرائیل میں قائم امریکی سفارت خانے کو القدس منتقل کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے غیر منقسم بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کیا تھا۔
اسرائیل نے مقبوضہ مشرقی بیت المقدس اور غرب اردن کے علاقوں پر سنہ 1967ء کی 6روزہ عرب۔ اسرائیل جنگ میں قبضہ کیا تھا۔ عالمی برادری نے سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے علاقوں پر اسرائیلی تسلط تسلیم نہیں کیا۔ سنہ 1980ء کو اسرائیل نے بیت المقدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت قرار دیا تھا تاہم اقوام متحدہ نے اسرائیل کا اعلان مسترد کردیا تھا۔امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کے بارے میں فی الحال کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں کی گئی۔ بہ ظاہر لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے القدس منتقلی کے اعلان سے دست بردار ہوچکے ہیں۔صدر ٹرمپ 22 اور 23 مئی کو اسرائیل کے دورے پر تل ابیب پہنچ رہے ہیں۔ ان کے اس دورے کو مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اہمیت کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ اس موقع پر اسرائیل میں اپنے سفارت خانے کو تل ابیب سے القدس منتقل کرنے کا اعلان بھی کرسکتے ہیں۔