منی پور، 17/نومبر (ایس او نیوز /ایجنسی) منی پور میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران دس عسکریت پسندوں کی ہلاکت کے بعد، عسکریت پسندوں نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ریلیف کیمپ سے چھ افراد کو اغوا کر لیا۔ اس اغوا کے دو دن بعد، ایک خاتون اور دو بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں، جس سے منی پور میں کشیدگی مزید بڑھ گئی۔ 16 نومبر کو امپھال وادی میں صورتحال اس وقت مزید بگڑ گئی جب مشتعل ہجوم نے کئی گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق، عسکریت پسندوں نے خواتین اور بچوں سمیت چھ شہریوں کو اغوا کر لیا تھا، جس کے نتیجے میں علاقے میں تشدد کی نئی لہر پیدا ہو گئی۔
مظاہرین کے ایک ہجوم نے وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ کی رہائش گاہ پر حملہ کیا۔ احتجاجی ہجوم وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا ، سیکورٹی اہلکاروں سے جھڑپ ہوئی۔ اس سے قبل پرتشدد ہجوم نے کچھ ایم ایل اے کے گھروں میں توڑ پھوڑ کی تھی۔نیوز پورٹل ’اے بی پی‘ پر شائع خبر کے مطابق امپھال میں مظاہرین نے دو وزراء اور تین ایم ایل اے کے گھروں پر حملہ کیا۔ حکام نے بتایا کہ ہجوم نے صحت اور خاندانی بہبود کے وزیر سپم رنجن کی لامفیل سناکیتھل میں واقع رہائش گاہ اور امور صارفین اور عوامی تقسیم کے وزیر کے گھر پر مشتعل ہجوم نے حملہ کیا۔
منی پور حکومت نے وزارت داخلہ کو ایک خط بھیجا ہے جس میں ریاست میں 'ڈسٹربڈ ایریا ' نافذ کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے وادی کے چھ پولیس تھانوں کے علاقوں میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ(اے ایف ایس پی اے) کے دوبارہ نفاذ پر دوبارہ غور کرنے کی درخواست کی ہے۔
منی پور میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر ریاستی حکومت نے کئی اضلاع میں انٹرنیٹ اور موبائل ڈیٹا سروسز پر عارضی طور پر پابندی لگا دی ہے۔ اس حکم کے تحت، 16 نومبر 2024 سے، امپھال ویسٹ، امپھال ایسٹ، بشنو پور اور دیگر متاثرہ اضلاع میں انٹرنیٹ خدمات دو دن کے لیے معطل رہیں گی۔ یہ قدم ریاست میں افواہوں اور اشتعال انگیز مواد کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اٹھایا گیا ہے، جو تشدد کا باعث بن سکتا ہے۔ حکومت نے خبردار کیا ہے کہ اس حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔