ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / اسپورٹس / فرانس اور روس کے تعلقات میں بہتری کی امید؟

فرانس اور روس کے تعلقات میں بہتری کی امید؟

Wed, 31 May 2017 11:51:29  SO Admin   S.O. News Service

پیرس30مئی(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)روس اور یورپی یونین کے مابین تجارتی اور سفارتی تعلقات اپنی نچلی ترین سطح پر ہیں۔ یورپی یونین روس کے خلاف پابندیاں عائد کر چکی ہے لیکن فرانسیسی تجارتی حلقے ان کے سخت خلاف ہیں۔روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اپنے فرانسیسی ہم منصب ایمانویل ماکروں سے ملاقات کی ہے۔ یہ ملاقات فرانسیسی شہر مارسے میں ہوئی۔

قبل ازیں روسی حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ دونوں رہنما دو طرفہ تعلقات میں بہتری اور خاص طور پر تجارت اور انسداد دہشت گردی میں تعاون کے ساتھ ساتھ شام اور یوکرائن میں امن عمل کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔روسی صدر کو دورے کی دعوت ماکروں نے فرانسیسی صدر بننے کے فوری بعد دی تھی۔ تجزیہ کاروں کا جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا فرانسیسی صدر کی تقریب حلف برداری کے دو ہفتے بعد ہونے والی یہ ملاقات ایک علامتی ملاقات ہے اور اس میں کسی بڑے بریک تھرو کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

انتخابی مہم کے دوران فرانسیسی صدر ماکروں کی ٹیم نے روس پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ دائیں بازو کی امیدوار مارین لے پین کی حمایت کر رہا ہے جبکہ اسے سے پہلے لے پین نے ماسکو میں صدر پوٹن سے ملاقات بھی کی تھی۔ یوکرائن تنازعے کی وجہ سے روس اور یورپی یونین کے مابین تعلقات اپنی نچلی ترین سطح پر ہیں جبکہ روس کے خلاف عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے ماسکو اور یورپی یونین کے رکن ممالک کے مابین تجارتی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔گلوبل کنسلٹنسی کنٹرول رسک گروپ کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر نبی عبداللہ ییف کہتے ہیں، یورپ میں سب سے زیادہ فرانس کی بزنس کمیونٹی روس کے خلاف عائد پابندیوں کے خلاف ہے۔ اس تجزیہ کار کا مزید کہنا تھا، یہ ملاقات ایک علامتی اقدام ہے لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کے مابین بہتر تعلقات میں پہلا قدم ثابت ہوگی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ماکروں کی طرف سے روسی صدر کو دعوت دینا یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ وہ عملی اقدامات کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ اٹلی میں جی سیون سربراہی اجلاس کے موقع پر بھی فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ وہ شام کے حوالے سے روس کے ساتھ سمجھدارانہ مکالمہ چاہتے ہیں۔شام میں روس صدر بشار الاسد کو مدد فراہم کر رہا ہے جبکہ فرانس اسد مخالف اپوزیشن کی حمایت کرنے والے مرکزی کرداروں میں سے ایک ہے۔زبان پہچاننے والا سافٹ ویئر ان افراد کے خلاف پہلے سے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ ایک جرمن اخبار نے یہ الزام اپنی ایک رپورٹ میں عائد کیا ہے تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی اتنی بھی مؤثر نہیں، جتنا اسے سمجھا جا رہا ہے۔

جرمنی کی امیگریشن اتھارٹی اس حوالے سے کئی طرح کی تنقید کا شکار ہے، جس میں کہا جا رہا ہے کہ ایسے مہاجرین جن کے آبائی ممالک کی نشان دہی ممکن نہیں تھی، انہیں اس سافٹ ویئر کا استعمال کر کے پہچانا جا سکتا تھا۔جمعے کے روز جرمن اخبار فرانکفرٹر الگمائینے نے اپنی ایک رپورٹ میں الزام عائد کیا کہ جرمنی کا وفاقی دفتر برائیمہاجرت اور پناہ گزین گزشتہ برس سے اس سافٹ ویئر کا حامل تھا، تاہم اسے مہاجرین پر استعمال کرنے سے اجتناب برتا گیا، جس کی ایک وجہ جرمنی کا نجی کوائف سے متعلق قانون تھا۔اس اخباری رپورٹ میں محکمہ مہاجرت و پناہ گزین کے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سن 2016ء میں اس وفاقی دفتر نے مختلف جرمن اور اسرائیلی کمپنیوں سے لہجہ پہچاننے والے سافٹ ویئر سے متعلق پیش کشیں بھی طلب کی تھیں، تاہم اس کا استعمال صرف رواں برس شروع کیا گیا۔


Share: