عمان،27مئی(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)خلیجی ریاست قطرکے امیر مملکت الشیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے اپنے ایک بیان میں لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کو ’مزاحمتی‘ تنظیم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران سے مخاصمت اور عداوت دانش مندی نہیں۔ یہ بات کہتے ہوئے امیر قطر یہ بھول گئے وہ جس حزب اللہ کو مزاحمتی قوت قرار دے رہے ہیں وہ خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔امیر قطر کا یہ بیان قطر کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کی طرف سے شائع کیا گیا مگر بعد میں قطری حکومت اور خبر رساں ادارے کی طرف سے کہا گیا کہ ویب سائیٹ کو ہیک کیا گیا تھا۔ یہ دعویٰ کیاگیا کہ خبر رساں ادارے کی ویب سائیٹ پر امیر قطر کی طرف سے ایک جعلی اور من گھڑت بیان شائع کیا گیا تھا۔اگرچہ امیر قطر کی طرف سے حزب اللہ کی حمایت میں دیا گیا بیان واپس لے لیا گیا ہے مگر عملا دوحہ کی سرکاری پالیسی حزب اللہ اور ایران کی حمایت پر مبنی ہے۔
قطر اور حزب اللہ کے درمیان باہمی تعاون بہت پرانا ہے تاہم دو طرفہ تعاون صرف شام کے بحران کی وجہ سے پیدا ہوا۔ قطری حکومت کے حالیہ بیانات سے لگتا ہے کہ پانی اپنے سابقہ راستوں پر ایک بار پھر سے چل پڑا ہے اور عشق ممنوع کی داستان کی اگلے مراحل آنے والے ہیں۔
لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر اور حزب اللہ کے حلیف نبیہ بری نے سنہ 2008ء4 میں پارلیمنٹ سے خطاب میں اس بیان کو فراموش نہیں کیا جاسکتا جس میں انہوں نے قطری قیادت کی تعریف وتوصیف کے پل باندھ دیے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب لبنانی تنظیموں کیدرمیان 18 ماہ تک جاری رہنے والی خون ریز لڑائی کے بعد قطر کے تعاون سے ایک نیا معاہدہ طے پایا تھا۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق حزب اللہ اور اس کے حامی ‘گروپ 8 مارچ‘ کو قطر کی غیر مشروط حمایت حاصل تھی جب کہ ’فیوچر‘ پارٹی اور اس کے حلیف ’گروپ14مارچ‘ کو قطر کی مخالفت کا سامنا تھا تاہم قطر نے دونوں گروپوں کے درمیان مفاہمت اور مصالحت کرائی۔حزب اللہ کی جانب سے بیروت اور کئی دوسرے شہروں میں کئی ماہ تک نظام زندگی کو مفلوج رکھا گیا جس کے نتیجے میں سیاسی اور اقتصادی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی تھیں۔متحارب فریقین میں معاہدہ کرانے پر لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری نے سابق امیر کویت الشیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی نے مصری کوششوں کو بارش کا پہلا قطرہ قراردیا۔
سابق امیر قطر کے سنہ 2010ء کے دورہ لبنان کے موقع پر اگر کوئی طاقت ور گروپ لبنان میں تھا تو وہ حزب اللہ تھی۔ الشیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی کی حزب اللہ کے گڑھ جنوبی لبنان میں میزبانی کی گئی۔ اس موقع پر اس وقت کیامیر قطر نے 2006ء4 کی اسرائیلی جنگ متاثرہ کالونیوں کی تعمیر نو کا بھی جائزہ لیا۔ جن کی تعمیر نو کے لیے قطر کی طرف سے امداد فراہم کی گئی تھی۔حزب اللہ کی طرف سے الشیخ حمد آل ثانی کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ حزب اللہ کی طرف سے قطری امیر کے استقبال کے لیے ایک فوجی پریڈ منعقد کی۔ اس موقع پر سابق صدر میشل سلیمان اور وزیراعظم سعد حریری، جنوبی لبنان کی سیاسی قیادت، ارکان پارلیمنٹ اور حزب اللہ کی مکزی قیادت بھی موجود تھی۔امیر قطر کے دورہ لبنان اور حزب اللہ کی جانب سے ان کی میزبانی کے ساتھ ساتھ حزب اللہ کے حامی ذرائع ابلاغ پر قطری قیادت کی خدمات کے طومار باندھے گئے۔ یہ تک کہا گیا کہ قطر علاقائی سطح پر اعتدال پسند عرب اقوام کی نمائندگی کرتا ہے۔ قطر نے خطے کا چہرہ تبدیل کیا ہے۔حزب اللہ کی طرف سے امیر قطر کے استقبال کے لیے لگائے بینروں اور پوسٹروں پر ’شکریہ امیر قطر‘ کے الفاظ جعلی حروف میں لکھے گئے اور استقبالی بینروں سے لبنان کی شاہراؤں کو بھر دیا گیا تھا۔
شام میں سنہ 2011ء میں ایران نواز حکومت کے مظالم کے خلاف عوام نے علم بغاوت بلند کیا تو اسے کچلنے کے لیے جہاں ایران اور صدر بشارالاسد کے تمام حربے استعمال کیے وہیں لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ بھی اس جنگ میں کود پڑی۔ شام کی جنگ میں حزب اللہ کی شمولیت کے نتیجے میں قطر اور حزب اللہ کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے۔ تاہم یہ سرد مہری زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہی۔لندن سے شائع ہونے والے اخبار’العرب‘ نے مبصرین کے حوالے سے بتایا کہ شام کے بحران کے حوالے سے قطری اور شامی عہدیداروں کے باہمی رابطوں کے ساتھ حزب اللہ اور دوحہ کے درمیان بھی رابطے برقرار رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ رابطے قطر کی درخواست پر کیے گئے۔ قطر نے حزب اللہ کیساتھ مصالحت کے لیے اسے غیرمعمولی مالی امداد کی بھی پیش کش کی۔قطر کو شام کی تحریک انقلاب کے حوالے سے اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب شامی اپوزیشن کی قیادت سعودی عرب کے حلیف احمد الجربا نے اپنے ہاتھ میں لی۔ ورنہ قطر شامی اپوزیشن کی قیادت اخوان المسلمون کو دلانے کے لیے کوشاں تھا۔ جب قطر اپنے مشن میں ناکام رہا تو اس نے حزب اللہ کے ساتھ دوستی بحال کرنے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ دوحہ نے شام میں بشارالاسد کی حکومت کو تقویت دینے کی بھی نہ صرف ضمانت فراہم کی بلکہ اس کی مکمل تیاری کرلی تھی۔ قطر کی ان کوششوں کا مقصد شام میں اخوان المسلمون کو آگے لگانا اور سعودی عرب کی حامی قوتوں کے کردار کو محدود کرنا تھا۔
گذشتہ اپریل کو قطر اور حزب اللہ کے درمیان ایک نیامعاہدہ طے پایا جس کے تحت حزب اللہ نے عراق میں یرغمال بنائے قطری حکمراں خاندان کے 26 افراد کی رہائی میں مدد کی۔ انہیں جنوری 2016ء کے دوران شکار کے سفر کے دوران اغواء کرلیا گیا تھا۔لبنانی اخبارات کے مطابق قطری شہزادوں کی عراق میں یرغمالیوں کے چنگل سے رہائی میں حزب اللہ کا کلیدی کردار ہے۔عراقی حکومت کے ذمہ دار ذریعے نے بھی تصدیق کی قطری حکمران خاندان کے 26 افراد کی بازیابی میں حزب اللہ کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ذرائع کے مطابق قطر کی طرف سے بات چیت کی ذمہ داری عراق کے حزب اللہ بریگیڈ کو سونپی گئی اور اس گروپ نے مغویوں کے ساتھ متعدد بار مذاکرات کیے۔قطری شہریوں کو یرغمال بنانے والوں اور عراقی حزب اللہ کے درمیان ابتداء میں مذاکرات ناکام رہے تاہم ایک ماہ قبل دو قطریوں کو رہا کرالیا گیا۔قطری شاہی خاندان کے افراد کا اغواء مکمل راز داری میں کیا گیا اور انہیں قیمتی شکار قرار دیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ ک 28 مغویوں میں 11 قطر کے حکمران آل ثانی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اغواء4 کاروں کو توقع تھی کہ شاہی خاندان کے افراد کی رہائی کے بدلے میں انہیں منہ مانگی قیمت مل سکتی ہے۔ اس دوران یہ افواہیں بھی گردش کرتی رہیں کہ مغوی قطری شہریوں کو عراق سے ایران منتقل کیا گیا ہے۔قطر اور حزب اللہ کے باہمی تعلقات کے 16 ماہ پر مشتمل مدو جزر کے بعد اس وقت تعلقات کی بحالی کے امکانات پیدا ہوئے جب شام کے شہر کفریہ اور الفوعہ۔ الضبدانی اور مضایا سے اپوزیشن کے حامی شہریوں کو جبرا بے دخل کرنے کا معاہدہ طے پا گیاہے۔ اس خبر کے کچھ دنوں بعد عراق میں یرغمال بنائے گئے قطریوں کی واپسی کی راہ بھی ہموار ہوگئی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ قطرنے اپنے شہریوں کو چھڑانے کے لیے 2.340 ارب ڈالر لبنانی حزب اللہ کو ادا کیے۔