برلن28جولائی(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)مہاجرین مخالف جرمن سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے نائب سربراہ الیگزانڈر گاؤلینڈ نے جرمنی میں مسلمان تارکین وطن کوپناہ دینے پر فوری پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ جرمن حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں نے اس مطالبے کی مذمت کی ہے۔دائیں بازو کی عوامیت پسند اور اسلام مخالف سیاسی جماعت آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ یا اے ایف ڈی کے نائب سربراہ الیگزانڈر گاؤلینڈ کی جانب سے یہ مطالبہ جرمنی میں حالیہ پرتشدد اور دہشت گردانہ واقعات میں مبینہ طور پر اسلام پسندوں کے ملوث ہونے کے پس منظر میں کیا گیا ہے۔گاؤلینڈ کا کہنا تھا، حالیہ دہشت گردانہ حملوں کی روشنی میں جرمنی میں مسلمان مہاجرین کو پناہ دینے کے عمل پر فی الفور پابندی عائد کر دی جانا چاہیے۔نیوز ایجنسی ڈی پی اے اور روئٹرز کی برلن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اے ایف ڈی کے نائب سربراہ گاؤلینڈ نے آج بدھ کے روز برلن میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ہم مسلمان مہاجرین کو بلا جانچ پڑتال جرمنی آنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔گاؤلینڈ کے اس بیان پر جرمن حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید بھی کی گئی ہے۔ وفاقی وزارت داخلہ کے ترجمان کاکہنا تھا کہ سیاسی پناہ حاصل کرنے کے حق کو پناہ گزینوں کے مذہب سے جوڑنا ہماری رائے میں مذہبی آزادی کے قانون سے مطابقت نہیں رکھتا۔جرمنی کے کثیر الاشاعتی جریدے ڈیئر اشپیگل نے لکھا ہے کہ اے ایف ڈی کا ملک میں مسلمان مہاجرین کو پناہ نہ دینے کا مطالبہ جرمن کے بنیادی آئین سے متصادم ہے۔جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت سی ڈی یو کے جنرل سیکرٹری پیٹر ٹاؤبر نے اے ایف ڈی کے اس مطالبے پر اپنے رد عمل میں کہا کہ ایسا کوئی بھی مطالبہ عوام میں خوف وہراس پھیلانے اور لوگوں کو بیوقوف سمجھنے کے مترادف ہے۔جرمنی کی گرین پارٹی کی سربراہ زیمونے پیٹر نے بھی اے ایف ڈی کے اس مطالبے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے، گاؤلینڈ لوگوں کے مابین ان کے مذہب کی بنا پر امتیاز کر کے ایسے افرادکو غیر محفوظ بنانا چاہتے ہیں جو سیاسی تعاقب کا شکار ہیں۔اے ایف ڈی کے رہنماؤں کی جانب سے ماضی میں بھی مہاجرین اور مسلمانوں کے خلاف بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔
ترکی:صحافیوں کے خلاف اقدامات
انقرہ28جولائی(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)ترکی میں اقتدار پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کے بعد صدر رجب طیب ایردوآن کی جانب سے مختلف سطحوں پر تطہیر کا عمل جاری ہے۔ آج ایک معروف حکومت مخالف اخبار کے ملازمین کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد روزنامے زمان کے سینتالیس سابقہ ملازمین کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان ملازمین میں اخبار کے سینیئر ارکان کے ساتھ ساتھ چند ایک کالم نگار بھی شامل ہیں۔ ان کالم نگاروں میں شاہین الپے بھی شامل ہے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے گولن تحریک کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔واضح رہے کہ اخبار زمان بھی امام اور مبلغ فتح اللہ گولن کی اُسیحزمت تحریک کے ساتھ وابستگی رکھتا ہے، جسے انقرہ حکومت ناکام بغاوت کے لیے قصور وار قرار دے رہی ہے۔ ترکی میں پندرہ جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد سے اب تک تیرہ ہزارسے زائد افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ اس دوران270افراد ہلاک ہوئے تھے۔امریکی ریاست پینسلوینیا میں رہائش پذیر فتح اللہ گولن انقرہ حکومت کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ترک حکومت امریکا سے ان کی حوالگی کامطالبہ کر رہی ہے اور اس طرح ترک صدر امریکا کو بلیک میل کر رہے ہیں، امریکا کو حوالگی کے مطالبے کومستردکردیناچاہیے۔ وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ بغاوت کی یہ سازش خود ایردوآن کی تیار کردہ ہو۔مارچ میں زمان اور اس کے انگریزی اخبار ٹوڈے زمان کے خلاف حکومت نے سخت کارروائی کرتے ہوئے سرکاری اہلکاروں کو اس کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی تھی۔ اس کے بعد سے اس اخبار کا موقف تبدیل ہو گیا تھا اور اس کا شمار حکومت نواز اخباروں میں ہونے لگا تھا۔ حکومتی ذرائع نے بتایا کہ ان وارنٹ کا تعلق ماضی کی تحریروں سے نہیں ہے بلکہ زمان کے کچھ اہم ملازمین کے گولن تحریک سے قریبی روابط ہیں اور یہ لوگ تفتیشی عمل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انقرہ حکومت کی جانب سے صحافیوں اورنشریاتی اداروں کے خلاف کارروائی کو آزادی اظہار پر کاری ضرب سے تعبیرکیاہے۔