انقرہ26جولائی(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)ترکی کے ذرائع ابلاغ کے مطابق ترک حکام نے اکتیس ماہرین تعلیم کو حراست میں لے لیا ہے اور بیالیس صحافیوں کی گرفتاری کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔ترکی میں ایک ناکام فوجی بغاوت کے بعد یہ اقدام ایک متنازعہ کریک ڈاؤن کے تحت ان افراد کے خلاف اٹھایا جا رہا ہے جن کے بارے مین انقرہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ امریکا میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن کے حامی ہیں۔ ترک حکومت فوجی بغاوت کا الزام فتح اللہ گولن پرعائد کرتی ہے۔ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق جن صحافیوں کے خلاف پوچھ گچھ کے لیے وارنٹ جاری کیے گئے ہیں ان میں ایک نام ممتاز قلم کار نازلی لیکاک کا بھی ہے جو صدر طیب ایردوان کے ناقدین میں سے ہیں۔ لیکاک نے ترک عالم فتح اللہ گولن کی تحریک کو کچلنے کیخلاف صدرایردوآن کی مخالفت کی ہے۔ دوسری جانب گولن نے اس فوجی بغاوت میں کسی بھی طور ملوث ہونے سے انکار کیا ہے جس میں تقریباََ290افراد ہلاک ہوئے تھے اور جسے صدر ایردوآن کی وفادار فورسز اور حکومت نواز مظاہرین نے کچل دیاتھا۔خبررساں ایجنسی انادولو کے مطابق اب تک پانچ صحافیوں کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔ترک صدارتی دفتر کے ایک سینیئر عہدیدار کی طرف سے غیر ملکی میڈیا کو بھیجے جانے والے ایک ٹیکسٹ میسج میں کہا گیا ہے، استغاثہ نے ان صحافیوں کو فوجی بغاوت کے منصوبے سے متعلق سوالات کے لیے حراست میں لینے کی درخواست کی تھی۔ یہ گرفتاریاں ان کی صحافتی سر گرمیوں کے حوالے سے نہیں بلکہ ممکنہ مجرمانہ طرز عمل کے تناظر میں کی گئی ہیں۔ یہ بات اس سینیئر عہدیدار نے ترک حکومت کے قواعد و ضوابط کے مطابق نام مخفی رکھنے کی شرط پربتائی۔حکومت نواز اخبار صباح کے مطابق مطلوبہ صحافیوں کی فہرست میں ایک اخبار کے ایڈیٹر ایرکان اکر اور ایک نیوز شو کے میزبان ایرکن اکوس بھی شامل ہیں۔ حکام کو مطلوب ایک اورصحافی حانیم بصرہ ایردل ہیں۔ ایردل سابق کالم نگار اور زمان اخبار کے رپورٹر ہیں۔ اس اخبار کو رواں برس مارچ میں گولن کی تحریک کے ساتھ روابط ہونے پر حکومت نے اپنے قبضے میں لے لیاتھا۔انادولو کی رپورٹ کے مطابق اکتیس ماہرین تعلیم کواستنبول اور چار دوسرے صوبوں میں پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے، جن میں زیادہ تعداد پروفیسروں کی ہے۔سکیورٹی حکام نے استنبول میں قائم فوج کی وار اکیڈمی پر بھی چھاپہ مارا ہے اور وہاں سے چالیس افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ترک حکومت نے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے ناکام فوجی بغاوت کے تناظر میں فوج، عدلیہ اور دیگر اداروں سے لگ بھگ تیرہ ہزار افراد کو حراست میں لے لیاتھا۔
تھائی لینڈ حلال مصنوعات کا مرکز بنے گا
بنکاک 26جولائی(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)تھائی لینڈ کی فوجی حکومت کے سربراہ نے ملک کے غریب عوام اور پر تشدد باغیانہ کارروائیوں کا نشانہ بنے مسلمان اکثریتی جنوبی صوبوں کو حلال اشیاء کی پیداوار کا مرکز بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔تھائی لینڈ کے جنوبی صوبے سن 2004 سے پر تشدد کارروائیوں کا نشانہ بنتے آ رہے ہیں۔ ان کارروائیوں میں قریب چھ ہزار پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں ۔ علاوہ ازیں تھائی لینڈ کی اس معیشت کو بھی بہت نقصان پہنچا ہے، جس کا زیادہ تر دار و مدار زراعت پر ہے۔تھائی لینڈ میں تقریباََروزانہ ہونے والے فائرنگ اور بم پھٹنے کے واقعات بین الاقوامی اخبارات میں شہ سرخیاں بنتے ہیں۔ جبکہ تھائی حکومت پر ملک کی حالت زار کو نظر انداز کرنے کا الزام ہے۔ جنرل پرَایُت چَان اُوچَا کی فوجی حکومت جو سن 2014 میں ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی، باغیوں کے ساتھ امن مذاکرات کو بحال کرنے میں ناکام رہی ہے۔آج پیر کے روز جنرل پرَایُت چَان اُوچَا نے تھائی لینڈ کے پسماندہ ترین علاقوں میں سے ایک میں جاری تشدد کی لہر کے باوجود وہاں سرمایہ کاری کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ پرَایُت نے ملائیشیا کی سرحد سے ملحق چار شورش زدہ ریاستوں میں سے ایک، ناراٹھیواٹ کے ایک غیر معمولی دوریکے دوران کہا، وقت آ گیا ہے کہ یہاں اچھی اقتصادی سرگرمیاں عمل میں لائی جائیں۔ میں اس علاقے کے لیے سب کچھ کروں گا۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت خصوصاََحلال خوراک کے کاروبار سے لے کر ہر خیال کی حمایت کرے گی تاکہ تھائی لینڈ جنوبی ایشیا ء میں پہلے درجے پر آ سکے۔تھائی لینڈ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ ملک دنیابھرمیں حلال خوراک کی پیداوار والا تیرہواں سب سے بڑا پیداواری ملک ہے تاہم حلال اشیاء کی پیداوار کا مرکز ملک کے انتہائی جنوب میں واقع ہے، جو شورش زدہ علاقہ ہے۔پرَایُت کی حکومت نے حلال مصنوعات کی صنعت میں سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کی منظوری دے دی ہے تاکہ اس کا شمار عالمی سطح پر حلال خوراک کے پہلے پانچ بڑے برآمد کنندگان میں ہوسکے۔ تھائی لینڈ کا جنوبی حصہ گزشتہ کئی برسوں سے بد امنی کا شکار ہے۔ وہاں کے مسلمان علیحدگی پسند بدھ اکثریت والی بنکاک حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ ان علیحدگی پسند مسلمانوں کی جانب سے حکومت پر ان کی منفرداسلامی مالائی ثقافت کو دبانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ تواتر سے کیے گئے بڑے حملوں، ماورائے عدالت قتل اور دیگر زیادتیوں نے مقامی لوگوں میں فوج پر بد اعتمادی میں اضافہ کیا ہے۔تھائی لینڈ کے مسلم اکثریتی صوبوں میں فوج اور رضا کارانہ دستوں کو ایک عرصے سے وہاں پر لاگو ہنگامی قوانین کے تحت مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے اور حراست میں لینے کی اجازت ہے۔ یہ ایمر جنسی قوانین وہاں ایک عشرے سے لاگو ہیں۔