بغداد29جولائی(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)ہیومن رائٹس واچ کے مطابق شام اورعراق میں اسلامک اسٹیٹ کی دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے اور ان کے خلاف جوابی کارروائیوں کے دوران ہزاروں بچوں کو حراست میں لیا گیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے تحفظ کے ادارے ہیومن رائٹس واچ کی ایک تازہ ترین رپورٹ میں اس بارے میں دستاویزات درج ہیں جن سے پتا چلا ہے کہ چھ بحران زدہ ممالک میں انسداد دہشت گردی کے نام پر ہونے والے آپریشن کے دوران بچوں کو حراست میں لیے جانے کے واقعات میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ ان ممالک میں افغانستان، ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو،عراق،نائجیریا، شام اسرائیل اور فلسطینی علاقے شامل ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی بچوں کے حقوق کی وکالت کرنے والی ایجنسی کے ڈائریکٹر جو بیکر کے بقول، شورش زدہ ممالک کی حکومتوں کی طرف سے مسلح انتہا پسندوں کے گروپ جیسے کہ آئی ایس آئی ایس اور بوکو حرام کے خلاف کارروائیوں کے دوران ہم نے نہایت خطرناک رجحان دیکھا۔اس بارے میں مزیدتفصیلات بیان کرتے ہوئے جو بیکر کا کہنا تھا، ان حکومتوں کی طرف سے بغیر کسی الزام کے ہزاروں بچوں کو اکثر مہینوں یہاں تک کہ سالوں کے لیے حراست میں لیا گیا۔ ان میں سے اکثر بچوں کو اذیت دی گئی اور ان کے ساتھ ناروا سلوک برتاگیا۔شام میں قائم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی دستاویزات کے مرکز کے حوالے سے ہیومن رائٹس واچ کی Caesar کے عنوان سے شائع ہونے والی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بحران زدہ عرب ریاست کی جنگ اب چھٹے سال میں داخل ہو چُکی ہے۔ اس دوران کم از کم ایک ہزار چار سُو تینتیس بچوں کو حراست میں لیا جا چُکا ہے جن میں سے محض 436 کی رہائی عمل میں آئی ہے۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق Caesar رپورٹ میں شائع ہونے والی تصاویرمیں، جنہیں ایک شامی باغی یا مفرور نے اسمگل کیا تھا، اذیت رسانی کا شکار ہونے والے زیادہ تر 18 سال سے کم عمرکے لڑکوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان ہی میں سے ایک 14 سالہ احمد المسلمانی بھی ہے جسے 2012 ء میں گرفتارکیاگیاتھا۔اسے حراست میں لینے کی وجہ یہ تھی کہ سیریئن افسروں کو اس کے موبائل فون پر ایک ایسے گیت کی ریکارڈنگ ملی تھی جو شامی صدر بشارالاسد کی حکمرانی کے خلاف تھا۔ یہ 14سالہ نوجوان قید میں ہی وفات پا گیا تھا۔ہیومن رائٹس کی رپورٹ سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ خواتین اور بچے خاص طور سے مردوں کی اذیت رسانی اور تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ بعض کیسز میں انہیں بجلی کے جھٹکے دے کر ان سے جھوٹے اقرار کروانے، عورتوں اور بچوں کے جسموں کو سگریٹ سے جلانے اورانہیں شدید طریقے سے زدو کوب کرنے کے واقعات بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ایمنسٹی کی اس رپورٹ سے یہ بھی پتاچلاہے کہ رواں برس فروری اور مئی کے درمیان شمال مشرقی نائجیریا کی جیوا بیریکس میں چھ سال سے کم عمر کے 11 بچے جن میں دو نوزائیدہ بھی شامل ہیں حراست میں رکھے گئے۔ مزید برآں یہ کہ کم از کم 120 بچے ابھی بھی جیوا بیرکس میں ناگفتہ بہ صورتحال میں زیر حراست ہیں۔
طورخم سرحد پر سکیورٹی گیٹ پیر سے فعال ہو جائے گا
کراچی29جولائی(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)پاکستانی حکام نے بتایا ہے کہ افغان سرحد سے متصل طورخم بارڈر پر سکیورٹی گیٹ آئندہ ہفتے سے فعال کر دیا جائے گا۔ کابل حکومت کی طرف سے اعتراض کے باوجود اسلام آباد اس متنازعہ سرحد پر سکیورٹی بڑھانا چاہتا ہے۔خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اٹھائیس جولائی بروز جمعرات پاکستانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ طورخم بارڈر پر تعمیر کیا گیا سکیورٹی گیٹ پیرسے فعال کر دیا جائے گا۔طورخم سرحد پرتعمیرات اور بارڈر مینیجمنٹ سے متعلق دوسرے اُمور پر بات چیت کرنے کے لئے ایک اعلٰی سطحی افغان وفد نے نائب وزیرِ خارجہ حکمت خلیل کرزئی کی سربراہی میں پاکستان حکام سے ملاقات کی ہے۔بتایاگیاہے کہ اس گیٹ کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے۔ وزیر دفاع آصف خواجہ نے دارالحکومت اسلام آباد میں صحافیوں کوبتایاکہ ہم اس منصوبے کو پایہ تکیمل تک پہنچائیں گے۔افغان حکومت نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ اس متنازعہ سرحدی گزرگاہ پرمستقل سکیورٹی نظام کو متعارف نہیں کرانا چاہیے۔ ناقدین کے مطابق پاکستان کی طرف سے اس اقدام پر دونوں ہمسایہ ممالک میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔جب پاکستان نے گزشتہ ماہ اس سکیورٹی گیٹ کی تعمیر کا کام شروع کیا تھا تو پاکستانی اورافغان افواج کے مابین ہونے والی جھڑپوں میں اطراف کے نصف درجن جوان مارے گئے تھے۔پاکستان اور افغانستان کے مابین اس مصروف ترین سرحدی راستے پر لیکن پاکستانی علاقے میں سکیورٹی گیٹ کی تعمیر کا یہ منصوبہ دراصل اس لیے بنایاگیاہے تاکہ پاکستان اپنے ہاں افغان باشندوں کی غیر قانونی آمد روک سکے۔یہ امر اہم ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین دو ہزار کلو میٹر سے زائد طویل سرحد دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین تناؤ کا سبب ہے۔ ڈیورں ڈ لائن نامی اس سرحدکوانیسویں صدی میں برطانوی راج کے دور میں تقسیم کیا گیا تھا۔پاکستان اور افغانستان کے مابین اس سرحد کی آٹھ تسلیم شدہ گزرگاہوں پر پاکستان ایسے ہی سکیورٹی انتظامات کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے جون میں طورخم سرحد سخت سکیورٹی اقدامات کرنے سے قبل یومیہ ہزاروں افراد اس گزر گاہ کا استعمال کرتے تھے۔