برلن26جولائی(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)جرمن صوبے باویریا کے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ انسباخ میں حملہ کرنے والے شامی مہاجر نے داعش کے سربراہ ابوبکرالبغدادی کی بیعت کر رکھی تھی ۔ اتوار کو باویریا میں اس مہاجرنے خود کش حملے میں پندرہ افراد زخمی کر دیے تھے۔باویریاکے وزیر داخلہ یوآخم ہیرمان نے پیر کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اتوار کی شب انسباخ میں حملہ کرنے والے ستائیس سالہ شامی مہاجر کے موبائل فون اور لیپ ٹاپ سے ایسی ویڈیو برآمدہوئی ہیں جن میں جہادی موادموجودہے۔جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر کا کہنا ہے کہ ملک میں غیر ملکیوں کی جانب سے حالیہ پر تشدد واقعات کے بعد جرمنی میں موجودتمام مہاجرین یا تارکین وطن کو مشکوک یا مشتبہ دہشت گرد نہ سمجھا جائے۔ہیرمان نے کہا کہ جس مقام پر اس غیر ملکی نے حملہ کیا تھا اور جہاں وہ رہتا تھا، وہاں متعدد موبائل فون سم کارڈز، دو موبائل فون اور ایک لیپ ٹاپ بھی ملا، جن کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ حملہ آور نے ابوبکر البغدادی سے وفاداری کا عہد کر رکھا تھا۔جرمن پولیس نے پیر کے دن مہاجرین کے ایک ہوسٹل میں چھاپہ مار کارروائی کرتے ہوئے کچھ اشیاء ضط کر لی تھیں۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ کارروائی انسباخ میں ہوئے حملے کی تحقیقات کا حصہ تھی۔خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے بتایا ہے کہ پولیس اہلکار انسباخ میں اتوار کی رات ہونے والے اس حملے کی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس مقصد کے لیے جرمن پولیس نے آج پچیس جولائی بروز پیر ایک ایسے ہوسٹل پر بھی چھاپہ مارا، جہاں مہاجرین قیام پذیر ہیں۔انسباخ حملے کا ذمہ دار ایک شامی مہاجر کو قرار دیا جا رہا ہے، جس کی عمر ستائیس برس تھی۔ پولیس نے کہا ہے کہ جب تک تفتیشی عمل مکمل نہیں ہوتا تب تک اس پرتشدد کارروائی پر کوئی تبصرہ کرنا قبل از وقت ہو گا۔ یہ امر اہم ہے کہ جرمنی میں ایک ہفتے کے دوران اپنی نوعیت کی یہ چوتھی پرتشدد کارروائی تھی۔پولیس نے بتایا ہے کہ اس خود کش دھماکے کے نتیجے میں حملہ آور مارا گیا جب کہ پندرہ افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ صوبہ باویریاکے وزیر داخلہ یوآخم ہرمان نے پہلے ہی خدشہ ظاہر کیا تھا کہ یہ کارروائی اسلام پسندانہ دہشت گردی ہو سکتی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا تھا کہ پختہ شواہد ملنے تک کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم ثبوت ملنے پر انہوں نے اب تصدیق کر دی ہے کہ یہ حملہ دراصل ایک جہادی کارروائی تھی۔انسباخ میں حملہ کرنے والا شامی شہری دو سال قبل جرمنی پہنچا تھا جبکہ گزشتہ برس اس کی پناہ کی درخواست مستردکر دی گئی تھی۔ حکام نے بتایا ہے کہ اسے بلغاریہ ڈی پورٹ کیا جانا تھا، کیونکہ اسی ملک میں اس کی پہلی مرتبہ رجسٹریشن ہوئی تھی۔ جرمن وزارت داخلہ کے مطابق شامی مہاجرین کو ملک بدر کرتے ہوئے شام روانہ نہیں کیاجاتاکیونکہ وہاں کی صورت حال خراب ہے لیکن ایسے مہاجرین کو دیگر یورپی ممالک بھیجا جا سکتا ہے۔
پولیس نے بتایا ہے کہ یہ شامی مہاجر پولیس کی لسٹ پر تھا کیونکہ اسے منشیات سے متعلقہ جرائم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ نفسیاتی مسائل کا شکار بھی تھا اور اس لیے نفسیاتی ماہرین نے اس کی مدد بھی کی تھی۔ یہ مہاجر دو مرتبہ خود کشی کی ناکام کوشش بھی کر چکا تھا۔پولیس کے مطابق گزشتہ رات اس حملہ آور نے صوبے باویریا کے انسباخ نامی شہر میں ایک ایسی جگہ کے باہر دھماکا کیا، جہاں ایک میوزک کنسرٹ ہو رہا تھا۔ پولیس کے مطابق اسے کنسرٹ میں جانے سے روک دیا گیا تھا کیونکہ اس کے پاس ٹکٹ نہیں تھا۔ حکام کے مطابق اگر وہ اندر چلا جاتا تو یہ کارروائی زیادہ خونریز ہو سکتی تھی۔یورپی یونین نے جرمنی میں ہونے والے حالیہ حملوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یورپی کمیشن کی ترجمان مارگریٹیس شنائز نے کہا ہے کہ مہاجرین کے لیے ہمدردی کے باعث سکیورٹی تحفظات پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ہے، ایسے افراد کے لیے یورپ کے دروازے کھلے ہیں، جو اپنے ممالک میں جنگی حالات اور تشدد کے خوف سے فرار ہو رہے ہیں۔ لیکن یورپی طرز زندگی پر حملوں کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔
ہر مہاجر کو مشتبہ دہشت گرد نہ سمجھا جائے: جرمن وزیر داخلہ
برلن26جولائی(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر کا کہنا ہے کہ ملک میں غیر ملکیوں کی جانب سے حالیہ پر تشدد واقعات کے بعد جرمنی میں موجود تمام مہاجرین یا تارکین وطن کو مشکوک یا مشتبہ دہشت گرد نہ سمجھا جائے۔جرمنی میں گزشتہ ہفتے کے دوران چارپرتشددواقعات پیش آئے اور ان سبھی میں پناہ گزین یا غیر ملکی پس منظر کے حامل افراد ملوث تھے۔ باویریا کے صوبائی دارالحکومت میونخ میں فائرنگ کے ایک واقعے میں حملہ آور سمیت دس افراد مارے گئے۔ فائرنگ کرنے والا نوجوان ایک ایرانی نژاد جرمن تھا۔ باویریا ہی میں گزشتہ پیر کے روز ایک افغان تارک وطن نے خنجر اور کلہاڑی سے وار کر کے پانچ مسافروں کو زخمی کر دیا تھا۔گزشتہ روز بھی جرمنی میں دو پرتشدد واقعات رونما ہوئے۔ ان دونوں میں شامی مہاجرین ملوث تھے۔ ان تمام واقعات کے بعد ملک میں مجموعی طور پر خوف کی فضا پائی جاتی ہے۔جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے اس صورت حال کے پیش نظر خبردار کیا ہے کہ ملک میں موجود سبھی مہاجرین پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا شبہ کرنا انتہائی غلط ہو گا۔ ڈے میزیئر کا کہنا تھا، اگرچہ مقدمات کی انفرادی چھان بین میں تارکین وطن کے ملوث ہونے کے ثبوت ملتے ہیں تاہم اس کے باوجود ہمیں ہر مہاجر پر اس کے ممکنہ طور پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا شبہ نہیں کرنا چاہیے۔
جرمن شہر اَیسن میں ایک مقامی میڈیا گروپ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں وفاقی وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا، جرمنی میں نئے آنے والے لاکھوں غیر ملکیوں میں سے اس وقت صرف 59 افراد پر شبہ ہے کہ ان کے دہشت گرد تنظیموں سے تعلقات ہیں اور ان سے تفتیش کی جا رہی ہے۔وزیر داخلہ نے کہا کہ روئٹلِنگن اور انسباخ میں پیش آنے والے واقعات نے انہیں ذاتی طورپر بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی دلی ہمدردیاں ان واقعات میں زخمی اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہیں۔اس انٹرویو سے قبل ڈے میزیئر قومی سلامتی کے اداروں کے سربراہان سے ملاقات کر رہے ہیں۔ ڈے میزیئر نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ ملک میں پیش آنے والے پر تشدد واقعات کے اصل محرکات جلد از جلد عوام کے سامنے لائے جائیں گے۔چانسر انگیلا میرکل کی جماعت سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر داخلہ نے اس امر پر بھی زور دیا کہ پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے تارکین وطن کی تعداد کو کم از کم رکھنے کی کوششیں جاری رکھی جائیں۔ ڈے میزیئر کا کہنا تھا کہ دنیا کے مختلف خطوں میں جاری تنازعات کے جلد ختم ہونے کے امکانات نہیں ہیں، اس لیے ہمیں یورپ کی بیرونی سرحدوں کا تحفظ بھی یقینی بنانا ہے اور بحران زدہ علاقوں کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے انہیں براہ راست یورپ تک بھی لانا ہے تاکہ وہ انسانوں کے اسمگلروں کا سہارا نہ لیں۔جرمن وزیر داخلہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ تمام تارکین وطن کے بارے میں استقبالیہ مراکز پر ہی مکمل چھان بین کر کے انہیں یورپ آنے کی اجازت دی جانا چاہیے۔