اسلام آباد29اکتوبر(آئی این ایس انڈیا؍ایس او نیوز)پاکستان کے صدر عارف علوی نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی نہ کوئی تجویز زیر غور آئی ہے نہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوارکیے جارہے ہیں۔یہ وضاحت صدر عارف نے اتوار کو استنبول روانگی سے قبل میڈیاکے نمائندوں سے گفتگوکے دوران کہی ہے۔
تاہم دوسری جانب اپوزیشن جماعت جے یو آئی ایف کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے اپنے ایک بیان میں اسرائیلی طیارے کی پاکستان آمد کی خبر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ طیارہ اتر چکا ہے اور آدھی تصدیق تو عمان کی حکومت نے کی ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ دو روز کے دوران سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اسرائیلی طیارے کی پاکستان آمد کی خبر گردش کرنے کے بعد پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے ایک بیان میں اسے مسترد کیا ہے۔کسی اسرائیلی طیارے کی پاکستان کے کسی بھی ایئرپورٹ پر آمد کی افواہ میں قطعی کوئی صداقت نہیں کیونکہ ایسا کوئی طیارہ پاکستان کے کسی بھی ایئرپورٹ پر نہیں اترا۔یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ پاکستان جس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں کیا دونوں ملکوں میں حالیہ طور پر ہونے والی مبینہ ملاقات یا رابطہ دونوں ملکوں کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔
مسلم دنیا کے اہم ممالک ترکی، اردن، عمان اور مصر کے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات ہیں۔ لیکن پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور اس کے اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ اسی فہرست میں پاکستان کے ساتھ ایران بھی شامل ہے۔کچھ ماہ قبل سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ اسرائیل کو اپنی سرزمین کا حق حاصل ہے۔سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان فی الحال کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں تاہم دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں گذشتہ چند سالوں میں بہتری آئی ہے۔سنہ 2003 میں بھی سابق صدر مشرف نے پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے قومی سطح پر مکالمے کا عندیہ دیا تھا۔پاکستانی صدر اس وقت دورہ ترکی پر ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان اور اسرائیل کے وزرائے خارجہ نے پہلی ملاقات ترکی میں ہی کی تھی۔ پہلی مرتبہ اس بات کا اعتراف ستمبر 2005 میں کیا گیا تھا۔ملاقات کے بعد پاکستان کے اس وقت کے وزیرِ خارجہ خورشید قصوری نے کہا تھا کہ پاکستان غزہ سے اسرائیل کے انخلا کے بعد اسرائیل سے رابطہ کرے گا۔استنبول میں اسرائیل کے وزیرِ خارجہ سلوان شلوم نے بھی پاکستانی وزیرِ خارجہ کے ساتھ ملاقات کو’’تاریخی‘‘قرار دیا تھا۔تاہم انھوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ یہ بات چیت 'پاکستان کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات استوار' کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔جب اس ملاقات کے حوالے سے پاکستان میں اسلامی جماعتوں نے مظاہرے کیے تو پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ پاکستان صرف اسی صورت میں اسرائیل کو تسلیم کرے گا جب فلسطین کی ریاست وجودمیں آئے گی اور اس کا دارالحکومت یروشلم ہو گا۔