اسلام آباد 3نومبر ( آئی این ایس انڈیا ؍ایس او نیوز) جمعیت العلماءِ اسلام (س) کے امیر اور معروف دینی درس گاہ 'جامعہ دارالعلوم حقانیہ' کے سرپرست مولانا سمیع الحق کی میت خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں واقع ان کے مدرسے منتقل کردی گئی ہے جہاں ان کی نمازِ جنازہ ہفتے کی سہ پہر تین بجے ادا کی جائے گی۔مولانا سمیع الحق کو جمعے کی شام راولپنڈی میں نامعلوم افراد نے ان کے گھر میں گھسنے کے بعد چھریوں کے وار کرکے قتل کر دیا تھا۔وہ جمعے کی صبح ہی آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شرکت کے لیے پشاور سے راولپنڈی آئے تھے اور شام کو واپس جانے والے تھے۔مولانا کی میت رات گئے راولپنڈی سے اکوڑہ خٹک روانہ کر دی گئی تھی جہاں ان کی نمازِ جنازہ کی ادائیگی اور تدفین کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ذرائع کے مطابق اکوڑہ خٹک میں واقع جامعہ حقانیہ کے داخلی راستوں پر سکیورٹی کے سخت انتظامات ہیں اور لوگوں کو سخت تلاشی کے بعد ہی اندر جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔مولانا کی تدفین میں شرکت کے لیے اب تک ان کے ہزاروں شاگرد اور معتقدین اکوڑہ خٹک پہنچ چکے ہیں جب کہ لوگوں کی آمد کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔نمازِ جنازہ میں کئی اہم دینی و سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین اور رہنماوں کی شرکت بھی متوقع ہے۔ راولپنڈی پولیس نے مولانا سمیع الحق کے قتل کا مقدمہ ان کے صاحبزادے مولانا حامد الحق کی مدعیت میں درج کرلیا ہے۔قتل کے مقدمے میں کہا گیا ہے کہ مولانا سمیع الحق جمعے کی شام راولپنڈی کے بحریہ ٹاؤ ن میں واقع اپنے گھر میں آرام کر رہے تھے جب نامعلوم افراد نے گھر میں گھس کر ان پر چاقو کے وار کیے۔پولیس کے مطابق مولانا کو جسم کے اوپری حصے پر 10 سے 12 زخم آئے۔اطلاعات کے مطابق جس وقت مولانا پر حملہ کیا گیا اس وقت ان کے ذاتی خادم اور محافظ گھر سے باہر گئے ہوئے تھے۔مولانا سمیع الحق کی عمر 80 برس سے زائد تھی لیکن وہ پیرانہ سالی کے باوجود تعلیم و تدریس اور سیاست میں متحرک تھے۔ مولانا کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جن میں افغان طالبان کے کئی سینئر رہنما بھی شامل ہیں۔افغان طالبان نے اپنے ایک بیان میں مولانا کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا قتل پوری مسلم امت اور خاص طور پر پاکستان کے لیے بڑا نقصان ہے۔بیان میں طالبان نے کہا ہے کہ مولانا سمیع الحق کے قتل میں اسلام دشمن ملوث ہیں جو نہیں چاہتے تھے کہ مولانا جیسا بڑا شخص امت کو بیداری کا درس دے۔