دبئی، 15/دسمبر (آئی این ایس انڈیا)ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے باور کرایا ہے کہ ان کا ملک یورپی پابندیوں یا تنقید کے خوف سے ،،، بحیرہ روم کے مشرق میں اپنے حقوق اور مفادات سے ہر گز دست بردار نہیں ہو گا۔ یہ موقف یونان کی وزارت خارجہ کی جانب سے ترکی پر امریکی پابندیوں کے خیر مقدم کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ واشنگٹن نے مذکورہ پابندیاں انقرہ کے ماسکو سے روسی فضائی دفاعی نظام (S-400) خریدنے کے جواب میں عائد کی ہیں۔
اس سے قبل یورپی یونین کے سربراہان نے بھی ترکی کے یونان اور قبرص کے ساتھ اختلاف کے حوالے سے ترک شخصیات پر محدود پابندیاں عائد کرنے پر اتفاق رائے کا اظہار کیا تھا۔ تاہم انہوں نے اس سلسلے میں کسی بھی بڑے اقدام کو آئندہ مارچ تک کے لیے ملتوی کر دیا ہے۔
یونان کی وزارت خارجہ نے پیر کے روز جاری ایک بیان میں کہا کہ ان کا ملک نیٹو اتحاد کا رکن ہونے کی حیثیت سے امریکی وزارت خارجہ کے بیان کو اطمینان کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے بیان میں ترک دفاعی صنعت کے ادارے ، اس کے سربراہ اور دیگر ذمے داران پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
یونان کے وزیر اعظم کیریاکوس میٹسوٹاکس نے ترکی کو ایک "غیر محفوظ" حلیف قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وہ نیٹو اتحاد کے مشترکہ امن کے لیے خطرہ ہے۔
واضح رہے کہ امریکی وزارت خزانہ نے پیر کے روز ترکی پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا۔ پابندیوں میں ترک دفاعی صنعت کے ادارے، اس کے سربراہ اسماعیل دمیر اور تین دیگر عہدے داران کو ہدف بنایا گیا ہے۔
اسی طرح ترکی پر امریکی پابندیوں میں انقرہ کو F-35 لڑاکا طیاروں کی فروخت کی ڈیل معطل کر دینا بھی شامل ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ترکی پر زور دیا ہے کہ وہ روسی S-400 ڈیل کے بحران کو فوری طور پر حل کرے۔
ترک وزارت خارجہ نے امریکی پابندیوں کے جواب میں کہا ہے کہ وہ امریکا کی یک طرفہ پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں مسترد کرتی ہے۔ مزید یہ کہ امریکی پابندیاں دونوں ملکوں کے تعلقات کو نقصان پہنچائیں گی اور ترکی حسب ضرورت جوابی اقدام کرے گا۔ ساتھ ہی امریکا پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس بھاری غلطی سے رجوع کرے۔