نئی دہلی 3؍دسمبر (ایس او نیوز؍ایجنسی) شہریت ترمیمی قانون کے خلاف عوام کی آواز بننے والی شاہین باغ کی دادی کے نام سے مشہور ہوئے 82 سالہ بزرگ خاتون بلقیس بانو نے نیوز 18 سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسانوں سے ملنے اور ان کے درمیان اس لئے گئیں تھیں کیونکہ شہریت قانون کے خلاف جب وہ احتجاج کررہی تھیں اس وقت سکھ بھائی بھی ان کی مدد اور حمایت کے لئے آئے تھے۔ بلقیس دادی نے کہا کہ وزیر اعظم مودی اور کسان دونوں ان کے بیٹوں کی طرح ہیں اور وہ مانتی ہیں کہ کسانوں کی بات سنی اور مانی جانی چاہئے، ان سے مذاکرات کیا جانا چاہئے۔ کیونکہ کسانوں کے فصل کی واجب قیمت نہیں مل پاتی، جس کی وجہ سے کم قیمت پر ان کو اپنی فصل فروخت کرنی پڑتی ہے۔
دادی بلقیس نے کہا کہ 8 روپئے کلو کے حساب سے فصل خریدی جاتی ہے، لیکن فروخت 20 روپئے کلو کی قیمت پر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی تصویر وائرل کی جارہی ہے اوریہ کہا جارہا تھا کہ وہ 100-100 روپئے لے کر کسانوں کے احتجاج میں شامل ہو رہی ہیں، اس پوری بات کو صاف کرنے وہ سندھو سرحد پر گئی تھیں۔ گزشتہ منگل کے روز دہلی پولیس کے ذریعہ حراست میں لئے جانے سے متعلق دادی بلقیس نے کہا کہ وہ سندھو بارڈر جارہی تھیں، لیکن پولیس نے ان کو کسانوں سے ملنے نہیں دیا وہ کسانوں تک نہیں پہنچ سکیں۔
غورطلب ہے کہ بلقیس دادی غازی آباد بارڈر یعنی دہلی اور اترپردیش کی سرحد پر کسانوں سے ملنے کے بعد کل سندھو باڈر پرکسانوں سے مل کر ان کے احتجاج میں شامل ہونا چاہتی تھیں، لیکن پولیس نے ان کو اجازت نہیں دی اور ان کو حراست میں لے لیا گیا، جس کے بعد پولیس ان کو اپنے ساتھ لے کر سریتا وہار تھانہ آئی اورا ن کو گھر لاکر چھوڑ دیا گیا۔ واضح رہے کہ پنجاب، ہریانہ، راجستھان اور اترپردیش کے کسانوں تقریباً ایک ہفتے سے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے بات چیت بھی شروع ہوئی ہے، لیکن ابھی تک کئی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔ اب کسان تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ زرعی قوانین کو ہر حال میں واپس لیا جائے، تبھی ہم اپنا احتجاج ختم کریں گے۔
بشکریہ : اردو نیوز 18