بنگلورو،7؍نومبر(ایس او نیوز) ریاست کے پانچ حلقوں کے ضمنی انتخابات میں حکمران کانگریس جے ڈی ایس اتحاد کی غیر معمولی برتری نے ریاستی بی جے پی قیادت کے اعتماد کی دھجیاں اڑادیں۔ سابق وزیر اعلیٰ اور ریاستی بی جے پی صدر بی ایس یڈیورپا کو یقین تھاکہ بی جے پی کم از کم تین سیٹوں شیموگہ ، بلاری اور جمکھنڈی میں کامیابی حاصل کرلے گی، اور جمکھنڈی اسمبلی حلقے میں اپنی جیت کی بدولت ریاست کی کانگریس جے ڈی ایس مخلوط حکومت کو گرانے کے لئے بی جے پی اپنی کوششوں میں شدت پیدا کردے گی، لیکن بلاری اور جمکھنڈی میں کانگریس نے جس طرح کی تاریخی کامیابی حاصل کی ہے اس کی وجہ سے بی جے پی اعلیٰ کمان نے بھی ریاستی بی جے پی قیادت کی صلاحیتوں کو لے کر سوالیہ نشان لگانا شروع کردیا ہے۔ سابق وزیراور سینئر بی جے پی لیڈرسریش کمار نے پارٹی کی اس طرح کی رسوا کن شکست کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے اس کے محاسبے پر زور دیا ہے۔ ضمنی انتخابات کی پانچ میں سے چار سیٹوں پر حکمران اتحاد کے قبضے میں جہاں بی جے پی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے تو دوسری طرف بلاری حلقہ جسے بی جے پی کا مضبوط قلعہ تصور کیا جارہا تھا 14 سال بعد کانگریس نے اسے پھر جیت لیا ہے۔ سری راملو جنہیں ریاست کا اگلا وزیر اعلیٰ قرار دیتے ہوئے بی جے پی کے ایک گروپ نے ان کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تھی، بلاری کی شکست نے اس گروپ کے حوصلوں کو ملیامٹ کردیا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ سدرامیا اور ریاستی وزیر ڈی کے شیوکمار کی طرف سے بلاری میں کی گئی منظم منصوبہ بندی اور سبھی کانگریس قائدین کی بھرپور انتخابی مہم بلاری میں کانگریس کے لئے فائدہ مند ثابت ہوئی۔ جہاں بلاری کی شکست کی ذمہ داری سری راملو نے اپنے سر لی ہے تو دوسری طرف رام نگرم اور منڈیا میں بی جے پی کی ناکامی کے لئے پارٹی کے داخلی حلقوں میں بعض وکلیگا لیڈروں کوذمہ دار ٹھہرایا جارہاہے۔ کانگریس جے ڈی ایس اتحاد کے مقابل پارٹی کے رسواکن مظاہرے پر بی جے پی اعلیٰ کمان نے بھی ریاستی بی جے پی صدر بی ایس یڈیورپا سے ناراضی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ پارٹی کے لیڈروں کو اگر وہ اعتماد میں نہیں لے رہے ہیں ہیں تو پھر پارٹی کو متبادل تلاش کرنا پڑ سکتا ہے۔ ریاست کی مخلوط حکومت کو گراکر دوبارہ وزیر اعلیٰ بننے یڈیورپا کا خواب ان ضمنی انتخابات نے بی جے پی کی رسوا کن شکست کے سبب شاید خواب ہی رہ جائے گا۔ کل ریاستی وزیر برائے آبی وسائل ڈی کے شیوکمار کانگریس اور جے ڈی ایس اتحاد کی کامیابی پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ بی جے پی کو جیت کا اس قدر یقین ہوچکا تھاکہ اس نے نتائج سے ایک دن قبل ہی حکومت کو گرانے کے لئے آپریشن کمل شروع کردیا اور بعض کانگریس اور جے ڈی ایس اراکین اسمبلی کو وزارت اور بھاری رقم کا لالچ دینے کے ساتھ یہ بھی پیش کش کردی کہ ان کے مطلوبہ مقام پر رقم فوری طور پر پہنچا دی جائے گی۔ تاہم محتاط کانگریس اراکین اسمبلی بی جے پی کے جال میں نہیں آئے۔ پچھلے اسمبلی انتخابات میں سابق وزیر اعلیٰ سدرامیا کے خلاف بادامی سے میدان میں اتر کر ان کے لئے چیلنج بننے والے سری راملو اس بار بلاری میں اپنی وہ سیاسی طاقت کا مظاہرہ نہیں کرپائے جس طرح کانگریس امیدوار وی ایس اگرپا نے تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ ووٹ حاصل کئے ہیں اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ بلاری پر اب ریڈی برادران اور سری راملو کا غلبہ تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ شیموگہ حلقے میں جہاں بی جے پی کو کامیابی ملی ہے وہاں بھی کامیابی کے لئے ریاستی بی جے پی صدر یڈیورپا کو کافی جدوجہد کرنی پڑی ہے۔ جے ڈی ایس کانگریس اتحاد کے امیدوار مدھو بنگارپا نے باپ بیٹوں کو اس بار لوہے کے چنے چبانے پر مجبور کردیا۔ پچھلی بار شیموگہ حلقے سے یڈیورپا کی کامیابی تقریباً دیڑھ لاکھ ووٹوں سے رہی لیکن اس بار کامیابی کا فرق گھٹ کر محض 50ہزار ووٹوں تک محدود رہ گیا۔ کانگریس جے ڈی ایس قائدین کا ماننا ہے کہ اگلے لوک سبھا انتخابات میں اگر مدھو بنگارپا کو میدان میں اتار دیا جائے تو شیموگہ کو بھی حکمران اتحاد اپنے قبضے میں لے سکتا ہے۔