کویت سیٹی22جولائی(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)میڈیا ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ لبنانی وزارت خارجہ کو کویتی وزارت خارجہ کی جانب سے ایک خط موصول ہوا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو برقرار رکھنے کے واسطے لبنانی وزارت خارجہ حزب اللہ ملیشیا کے حوالے سے اپنی ذمے داریاں پوری کرے۔ یہ پیش رفت کویتی عدلیہ کے اس فیصلے کے بعد سامنے آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ لبنانی ملیشیاحزب اللہ کویت میں العبدلی دہشت گرد گروپ کی فنڈنگ اور سپورٹ میں ملوث رہی ہے۔واضح رہے کہ کویت وہ پہلی ریاست تھی جہاں حزب اللہ تنظیم نے لبنان سے باہر اپنی دہشت گرد کارروائیاں سر انجام دیں۔دسمبر 1983میں سلسلہ واردھماکوں میں کویت انٹرنیشنل ایئرپورٹ، تیل کی مرکزی ریفائنری اور امریکا اور فرانس کے سفارت خانوں کونشانہ بنایاگیا۔بعد ازاں واضح ہو گیا کہ ایران کے ساتھ تعلقات رکھنے والی دو تنظیمیں ان کارروائیوں کی ذمے دار ہیں۔ ان میں ایک تو عراقی تنظیم حزب الدعوہ تھی اور دوسری حزب اللہ سے مربوط ایک جماعت تھی۔اس کے ایک برس بعد چار لبنانیوں نے ایک کویتی طیارہ اغوا کر لیا اور اسے راستہ تبدیل کر کے تہران کا رخ کرنے پر مجبور کر دیا۔ اغوا کاروں کا مطالبہ تھا کہ کویت میں گرفتار مذکورہ دھماکوں میں ملوث متعدد افراد کو رہا کیا جائے جن میں مصطفی بدر الدین بھی تھا جو بعد میں حزب اللہ کا ایک اہم رہ نما بن گیا۔اسی طرح 1985 میں کویت کے امیر شیخ جابر الاحمد الصباح کو کار بم دھماکے کے ذریعے قاتلانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کارروائی کے پیچھے ایران نواز عراقی تنظیم حزب الدعوہ کا ہاتھ تھا۔ یہ کارروائی انجینئر ابو مہدی نے کی جو اس وقت عراق میں شعیہ ملیشیا الحشد الشعبی کا نمایاں ترین کمانڈر ہے۔علاوہ ازیں حزب اللہ سے تعلق رکھنے والے مسلح لبنانیوں نے اپریل 1988 میں کویت کا ایک اور طیارہ اغوا کر لیا جو بینکاک سے آ رہا تھا۔سال 1989میں تہران نے حرم مکی آنے والے راستوں کو نشانہ بنانے کے لیے کویتی باشندوں کو دھماکا خیز مواد فراہم کیاہے۔