ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ساحلی خبریں / شمس الدین جوکاکو مرحوم کے کارناموں کی یاد تازہ کرتا ہواسوانحی خاکہ ؛ آفتاب کولا کی کتاب پر تبصرہ

شمس الدین جوکاکو مرحوم کے کارناموں کی یاد تازہ کرتا ہواسوانحی خاکہ ؛ آفتاب کولا کی کتاب پر تبصرہ

Mon, 18 Jul 2016 00:57:10  SO Admin   S.O. News Service

کتاب کا نام : 'J. H. Shamsuddin - Service Above Self' (جوکاکو شمس الدین ۔۔۔ بے لوث خدمات)
مصنف : آفتاب حسین کولا
ناشر : مجلس اصلاح و تنظیم ، بھٹکل
قیمت : ۲۰۰ ؍روپے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مبصر : ساحل آن لائن ٹیم
بیسویں صدی عیسوی کے دوران بھٹکل میں بہت ساری شخصیات ایسی پیدا ہوئیں، جنہوں نے قوم او ر سماج کے لئے گرانقدراور قابل ستائش خدمات انجام دی ہیں۔لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ مشکل سے بہت ہی کم شخصیات ایسی ہیں جن کی خدمات کو تفصیلی انداز میں نمایاں طور پر عوام کے سامنے لایا گیا ہے۔البتہ ان کے بارے میں صرف اجمالی تعارف سے کام لیا گیا ہے۔

اس پس منظر میں جناب آفتاب حسین کو لا نے حکومت کرناٹکا کے ایک سابق ڈپٹی وزیراوربھٹکل کے نامور سپوتوں میں سے ایک مرحوم جوکاکو شمس الدین صاحب کے تعلق سے جو کتاب'جے ایچ شمس الدین ۔۔ بے لوث خدمات' ('J. H. Shamsuddin - Service Above Self' ) کے عنوان سے تصنیف کی ہے وہ لائق تحسین ہے۔بھٹکل کے معروف ادارے مجلس اصلاح و تنظیم کی جانب سے شائع کردہ یہ کتاب یقیناًاس شخصیت کے لئے ایک خراج عقیدت ہے جس نے انسانیت کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔مصنف جو کہ ایک تجربہ کار اور خداداد صلاحیتوں کے مالک صحافی ہیں۔ اس سے قبل ایک اورکتاب 'S.M. Yahya - Action and Vision' کے شریک مصنف رہ چکے ہیں، انہوں نے اپنے دیباچے میں جناب مرحوم شمس الدین کے بارے میں لکھا ہے :"ان کی ہمہ جہت صلاحتیں، ان کا بے داغ کرداراور ان کے کارہائے نمایاں اور کامیابیوں کی بلندیاں ایسی ہیں کہ ان کی وفات کو دہائیاں گزرنے کے باجودآج بھی کرناٹک بھر میں ان کا نام گونجتا ہوا محسوس ہوتا ہے"
ان کے حصول تعلیم کے بارے میں اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بے پناہ شوق اور جذبے نے ا ن کو نوائط برادری کاfirst lawyer (پہلا وکیل) بنایا۔ان کی سیاسی زندگی کا گراف ہمیں بتا تا ہے کہ کس طرح سماجی خدمات کے میدان سے انہوں نے سیاسی ایوان تک کا سفر طے کیا۔ سب سے پہلے انہوں نے مسلم لیگ پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔جو ماقبل آزادی والے ماحول میں مسلمانوں میں بہت مقبول ہورہی تھی۔شمس الدین صاحب کا سیاست میں داخلہ مقامی بلدی ادارے سے ہوا۔ انہوں نے بھٹکل میونسپالٹی کے صدر کے بطور1954 - 58 تک خدمات انجام دیں۔ان کے زمانے میں بہت سے کچے راستوں کو پکی سڑکوں میں تبدیل کیا اور پہلی بار یہاں پر برساتی پانی کی نکاسی کا سسٹم عمل میں لایا گیا۔

مرحوم شمس الدین صاحب ممبئی پریسینڈنسی کے ایم ایل اے کی حیثیت سے پہلی بار1946میں اسمبلی میں پہنچے۔اس کے بعد دوبار1957 اور1962 میں ہوناور حلقے سے ممبر اسمبلی منتخب ہوئے(بھٹکل اس زمانے میں ہوناور اسمبلی حلقے میں شامل تھا)۔ اسمبلی میں داخلے کے ایک سال کے اندرہی24مئی 1958 کو مسٹر بی ڈی جیٹّی کی کابینہ میں شمس الدین صاحب کو ڈپٹی وزیر برائے مالیات بنایا گیا۔

کتاب میں شمس الدین صاحب کی ڈپٹی فائنانس منسٹر کے طور پر کامیابیوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔مصنف نے کرناٹکا سکریٹریٹ کے آرکائیوز سے میسور اسمبلی کے بحث و مباحثے کے دستاویزات کا مطالعہ کرنے کے بعد شمس الدین صاحب کی چند اہم کامیابیوں کا ذکر کیا ہے۔جیسے کہ شمس الدین صاحب نے فائنانس منسٹر کے طور پر یہ محسوس کیا کہ ولیج پنچایت اور تعلقہ بورڈس کو ان کی ضرورت پورا کرنے لائق فنڈ جاری کیا جانا چاہیے۔اس کے لئے انہوں نے چند عملی اقدامات کیے۔ان کی وزارت کے تحت کمرشیل ٹیکس ڈپارٹمنٹ کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لئے اسے ازسرنو تشکیل دیا گیا۔فائنانس منسٹر ٹی مریپّا کے ساتھ مل کر انہوں نے پلاننگ کمیشن کے بقایا جات ادا کرنے کے لئے اندرونی ذرائع سے فنڈ اکٹھا کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔زمین کا ٹیکس وصول کرنے کے سلسلے میں بھی انہوں نے مشورہ دیا کہ وصولی کا خرچ کم سے کم ہونا چاہیے۔

مصنف نے لکھا ہے کہ : "حالانکہ وزیر اعلیٰ نجلنگپا کے دور میں الیکٹری سٹی منسٹر کے طور پر ان کا دورانیہ کچھ کم رہا لیکن اس محکمے کے لئے ان کی خدمات کافی اہم اورنمایاں رہیں۔انہوں نے اس وقت کی ریاست میسور کے کونے کونے تک بجلی پہنچانے کے اقداما ت بڑی گہری دلچسپی سے کیے۔چونکہ انہوں نے خود برسوں تک موم بتی کے روشنی میں پڑھائی کی تھی اس لئے گھر گھر تک بجلی فراہم کرنے کی اہمیت وہ جانتے تھے اور صنعت کاری کے لئے اس کی ضرورت کا احساس رکھتے تھے۔1962 میں بجلی کے محکمہ کا وزیر بنتے ہی انہوں نے سب سے پہلے اپنے ہوناور اور بھٹکل کے ووٹرس کو بجلی کا تحفہ دیا۔حالانکہ جوگ فالس سے پانچ میل دور شراوتی ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ 5 فروری 1958 کو منظور ہوا تھا،لیکن اس کی تکمیل شمس الدین صاحب کی وزارت بجلی کے زمانے میں ان کی بے پناہ کوششوں سے ہوئی ۔شمس الدین صاحب کو اس بات کا احساس تھا کہ ریاست کے پاس بھرپور وسائل ہیں جو ابھی بے مصرف ہیں مگر ان سے بہت زیادہ بجلی پید ا کی جاسکتی ہے۔"

بھٹکل اور اس کے اطراف کے عوام کو شمس الدین صاحب کے زمانے میں جو اہم سرکاری سہولتیں حاصل ہوئیں اور انہوں نے کن منصوبوں کو کامیابی سے انجام دیا اس کے تعلق سے کتاب میں پورا ایک باب باندھا گیا ہے۔خان بہادر ایس ایم سید ابوبکر مولانا کی مالی پشت پناہی سے شمس الدین صاحب نے بھٹکل میں کوٹیج ہاسپٹل قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ (جواب گورنمنٹ جنرل ہاسپٹل کے نام سے جانا جاتا ہے) بھٹکل میں ٹیلی فون لائنوں کی سہولت فراہم کرنا بھی شمس الدین صاحب کا کارنامہ ہے۔مصنف لکھتا ہے : " معروف عالم دین مولانا قاری طیب صاحب سے ان کی وابستگی نے شمس الدین صاحب کی زندگی پر کافی گہرا اثر چھوڑا تھا۔جب 1952میں مولانا بھٹکل آئے تھے اور انجمن حامیٗ مسلمین میں ایک بڑا تاریخی جلسہ ہوا تھا تو شمس الدین صاحب نے انہیں ساتھ لے کرشہر کے مختلف مقامات کا دورہ کیا تھا۔ اور کافی وقت ان کے ساتھ گزارا تھا۔اس طرح جب بھی شہر میں کوئی بڑا مذہبی جلسہ ہوتا تو شمس الدین صاحب اس میں پیش پیش رہتے تھے۔ انجمن کے جنرل سکریٹری کے طور پر خدمات انجام دینے کے علاوہ شمس الدین صاحب مجلس اصلاح و تنظیم کی سرگرمیوں میں بھی پوری دلچسپی لیتے تھے۔یہ تنظیم ہی تھی جس نے ا ن کو سیاسی زندگی کے لئے پلیٹ فارم فراہم کیا تھا۔سن 1950سے تین میعادوں تک وہ تنظیم کے صدر منتخب ہوتے رہے۔چاہے وہ تنظیم کی
ریلیف کی سرگرمیاں ہوں، سیرت کے جلسوں کا انعقاد ہو،اسماعیل حسن صدیق فری لائبریری کے معیار کو بڑھانا ہو، ہر ایک کام میں وہ آگے رہتے تھے۔وہ جماعت المسلمین بھٹکل کے بھی ایک فعال عہدیدار تھے۔ساگر کے لئے جوگ سے جانے والی جو سڑک ہے وہ بارش کے دنوں میں موٹر گاڑیوں کی آمد و رفت کے قابل نہیں ہوا کرتی تھی۔ شمس الدین صاحب کی ہدایت پر ہی اس کو ٹار کی پکی سڑک میں تبدیل کیا گیا تھا۔اسی زمانے میں بھٹکل ٹاؤن میونسپالٹی کے حدود کو بھی توسیع دیتے ہوئے نوائط کالونی کو اس میں شامل کیا گیا تھا۔ان کے دور میں ہی بھٹکل میں اسٹریٹ لائٹس لگائی گئی تھیں۔انہی کی وزارت کے دوران بھٹکل اور شیرالی کو جوڑنے والا وینکٹا پور برج اور بھٹکل کا کڑوین کٹّا ڈیم تعمیر کیے گئے تھے۔اس عظیم شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے بھٹکل کے عوام نے بھٹکل کے قلب میں واقع ایک اہم جنکشن کو 'شمس الدین سرکل 'کا نام دیا ہے۔نوائط کالونی میں بھی ایک سڑک کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔کچھ عرصے پہلے بھٹکل مسلم جماعت بنگلور نے ایک عمارت تعمیر کی اور اسے ان کی یادگار کے بطور منسوب کیا ۔وہ ایک باعمل مسلمان تھے جنہیں اپنے نماز روزے جیسے دینی فرائض ادا کرنے میں سرکار ی ذمہ داریاں کبھی ان کے آڑے نہیں آتی تھیں۔ وزیر رہتے ہوئے بھی انہوں نے کبھی کوئی نماز نہیں چھوڑی تھی ۔
انجمن حامئ مسلمین جس سے انہیں دلی لگاؤ تھا،اس کی ترقی کے لئے شمس الدین صاحب نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔انجمن کی پرانی روداد سے معلومات اخذ کرنے کی جو محنت اور کوشش مصنف نے کی ہے اس کی ستائش کی جانی چاہیے۔ آفتاب کولا لکھتے ہیں: "انجمن کے ساتھ جوکاکو کی رفاقت کا آغاز 1931میں اس وقت ہوا جب انہوں نے قوم کے پہلے گریجویٹ اور ایم ایل اے جناب آئی ایچ صدیق کی طرف سے تعلیم کی اہمیت کے موضوع پر ایک تقریر پڑھی۔سامعین نے ان کی تقریر کو بڑے غور سے سنا اور اور ہر ایک نے اسے سراہا۔اس جلسے کی صدارت بار ایٹ لاء اورشمالی کینرا کے کلکٹر امین الدین کر رہے تھے۔اس جلسے سے جوکاکو صاحب عوام کی نظروں میں آگئے۔انہیں انجمن کے بورڈ میں شامل کرلیا گیا۔اور 1934میں ان کو ایجوکیشن کمیٹی میں شامل کیا گیا۔ایک قابل وکیل ہونے کی وجہ سے انہوں نے انجمن کی کارروائیوں اور سرگرمیوں کو قانون کے دائرے کے مطابق رکھنے کی کوشش کی۔انجمن جو پبلک ٹرسٹ ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے، اس کی تمام جائیداد کواس قانون کے مطابق رجسٹر کیا گیا۔" لہٰذا ان کے نام اور یاد کو زندہ و جاوید کرنے کے لئے انجمن آباد میں نو تعمیر شدہ عمارت انتظامی بلاک کو(جس کا افتتاح آج ہوا ہے) انجمن نے ان کے نام سے موسوم کردیا ہے ۔

اس کتاب میں امریکہ میں مقیم شمس الدین صاحب کی پوتی مریم طیب کا ان پرلکھا ہوا ایک باب بعنوانThe Man بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ شمس الدین صاحب کو پیش کیے گئے بہت سارے پیغامات پر مشتمل ایک باب بھی ہے۔جس میں بشمول وزیر اعلیٰ کرناٹک آنجہانی مسٹرایس نجلنگپا کئی سیاستدانوں کی طرف سے شمس الدین صاحب کی صلاحیتوں اور کامیابیوں کی سراہنا کی گئی ہے۔

نہایت عمدہ طباعت کے ساتھ کتاب کی قیمت دو سو روپے معقول ہے۔جس میں 20 بہت ہی اہم تصاویر ہیں۔مصنف نے بڑی تگ و دو کے ساتھ خوبصورت اور شگفتہ تحریر کے ذریعے حقائق کو بہترین اور قابل ستائش انداز میں پیش کیا ہے۔یقیناًیہ کتاب نئی نسل کے لئے ایک محرّک اور مشعل راہ ثابت ہوگی۔

شمس الدین صاحب کا انتقال27مارچ1964کو ہوا اور ان کے پسماندگان میں انہوں نے بیوی، چھ بیٹیاں اور چار بیٹے چھوڑے۔جو ہندوستان، خلیجی ممالک، امریکہ اور یوروپ میں شاد وآباد ہیں۔

کتاب کے دیباچے میں مجلس اصلاح و تنظیم کے جنرل سکریٹری محی الدین الطاف کھروری نے خلاصے کے طور پر لکھا ہے:"امید کی جاتی ہے کہ اس اقدام کو پسند کیا جائے گا اور نوجوان نسل جناب شمس الدین صاحب کی زندگی سے روشنی حاصل کرتے ہوئے ان کے خیالات اور فکر کو اپنی زندگی میں سمونے کی کوشش کریگی ۔"


Share: