ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ساحلی خبریں / سنبھل مسجد کمیٹی کے چیئرپرسن ظفر علی کے الزامات: پولیس پر گولی چلانے اور گاڑیاں جلانے کا دعویٰ، پولیس نے جھوٹ قرار دیا

سنبھل مسجد کمیٹی کے چیئرپرسن ظفر علی کے الزامات: پولیس پر گولی چلانے اور گاڑیاں جلانے کا دعویٰ، پولیس نے جھوٹ قرار دیا

Wed, 27 Nov 2024 11:36:10  SO Admin   S.O. News Service

 نئی دہلی، 27/نومبر (ایس او نیوز /ایجنسی )اتر پردیش کے سنبھل میں انتظامیہ اس وقت سوالات کی زد میں آ گئی جب مغل دور کی ایک تاریخی مسجد کے سروے کے دوران4 مسلمانوں کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا۔ 25 نومبر کو مسجد انتظامی کمیٹی کے چیئرپرسن ظفر علی نے پولیس پر سنگین الزامات عائد کیے، جن میں ہجوم پر گولیاں چلانے کا دعویٰ شامل تھا۔ یہ الزامات پولیس کے اس موقف کی تردید کرتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے صرف آنسو گیس، لاٹھی چارج اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا گیا تھا، اور مہلک ہتھیار استعمال نہیں کیے گئے تھے۔

علی کی جانب سے ایک پریس کانفرنس  میں الزامات لگانے کے فوراً بعد، پولیس نے وکیل کو پوچھ تاچھ کے لئے طلب کیا، جنہوں نے اپنے دعوؤں کی تردید کے لئے اپنی پریس بریفنگ کی۔ پولیس نے ان کے الزامات کو ’’گمراہ کن‘‘ اور ’’ سیاسی طور پر حوصلہ افزائی ‘‘ قرار دیا ۔ علی کو بعد میں گھر جانے کی اجازت دی گئی، اور پولیس نے واضح کیا کہ اسے حراست  میں نہیں لیا گیا اور نہ ہی گرفتار کیا جارہا ہے۔

شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران 24 نومبر کی صبح ہونے والے تشدد میں اب تک  4  مسلمان مردوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے۔ پولیس کا کہنا تھا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی موت گولی لگنے سے ہوئی  ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان پر دیسی ساخت کے ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی ہے۔ پولیس نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ ہجوم کے ارکان نے افراتفری کے دوران  ایک دوسرے پر گولی چلائی لیکن اس بات کا خلاصہ مجسٹریل تحقیقاتی رپورٹ کے بعد واضح ہوگا۔ 

’’میں نے دیکھا کہ پولیس گولیاں چلارہی ہے ۔ یہ بالکل میرے سامنے ہوا۔ میری موجودگی میں عوام کی طرف سے کوئی گولی نہیں چلائی گئی۔‘‘ علی نے کہا’ پولیس نے اپنی ہی گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی‘۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ واقعے کے دوران پولیس کے پاس دیسی ساخت کے ہتھیار تھے اور انہوں نے مسجد کے قریب کھڑی اپنی گاڑیوں کو توڑ پھوڑ اور نذآتش کیا۔ پولیس نے دیسی کٹے بھی اٹھا رکھے تھے۔ وہ (مظاہرین) ایک دوسرے کو کیوں ماریں گے؟ اگر انہیں گولی چلانی ہوتی تو وہ عوام پر نہیں پولیس پر گولی چلاتے۔ یہ سوچنے کی بات ہے۔ 

علی نے کہا، سینئر وکیل نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ اس موقع پر موجود تھا جب اس نے مراد آباد کے دپٹی انسپکٹر جنرل ، سنبھل کے سپرنٹنڈنٹ آ ف پولیس، اور سنبھل ضلع مجسٹریٹ کو یہ بات کرتے ہوئے سنا کہ ہجوم کے خلاف گولی چلانے کے احکامات جاری کیے جائیں۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ سنبھل کرشن کمار بشنوئی نے ان الزامات کی تردید کی کہ پولیس نے مظاہرین پر گولی چلائی۔ انہوں نے سوال کیا کہ جب چیزیں ربڑ کی گولیوں سے قابو میں تھیں تو ہم فائرنگ  کا سہارا کیوں   لیں گے۔

بشنوئی نے کہا کہ واقعہ کے دوران کسی بھی موقع پر پولیس اور ہجوم 150-100 میٹر سے کم فاصلے پر نہیں تھے۔ یہ کہنا کہ پولیس نے وہاں کھڑے ہو کر انہیں قریب سے گولی ماردی اور  دیسی ساخت کے پستول سے گولی چلائی ، خود ایک سوال اٹھتا ہے۔ ہم ایک پیشہ ور پولیس فورس ہیں، بشنوئی نے کہا ، انہوں نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے دیسی ساخت کے ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ افسر نے اس الزام کی بھی تردید کی کہ وہ  ڈپٹی  انسپکٹر جنرل اور ضلع مجسٹریٹ کے  ساتھ کے حکم پر بات کررہے تھے۔ بشنوئی نے کہا ، کسی بھی  حالت میں ہم تینوں ایک جگہ پر نہیں تھے۔ انہوں نے علی کے اس الزام کو بھی بیان کیا کہ پولیس نے اپنی گاڑیوں کو ’’سیاسی طور پر حوصلہ افزائی ‘‘ اور ’’ خود حوصلہ افزائی‘‘ کے طور پر آگ لگا دی۔ 

دی ایس پی اور ڈی ایم راجندر پنسیا نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ علی کے الزامات گمراہ کن اور ساز کا حصہ ہے ۔ ان کہنا تھا  کہ علی نے پولیس فائرنگ کے بارے   میں یہ الزامات ملزمان کو بچانے کے لئے سماج اور میڈیا کے دباؤ کو استعمال کرنے اور پتھراؤ کے واقعے میں زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں سے پتھراؤ کرنے والوں سے ہمدردی چھیننے کے لئے لگائے۔ ڈی ایم نے علی کے اس دعوے کو بھی مسترد کردیا کہ اس نے فائرنگ دیکھی تھی ۔ صبح 10:30 سے 11 بجے تک وہ مسجد میں سروے کررہے تھے۔ کیا وہ مسجد کے اندر سروے کررہا تھا باہر فائرنگ دیکھا رہا تھا؟ 

پنسیانے پوچھا، اپنی پریس کانفرنس میں علی نے یہ بھی کہا کہ یہ واقعہ اس افواہ کے پھیلنے کے بعد شروع ہوا کہ سروے ٹیم نے مسجد میں کھدائی شروع کردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ افواہ اس وقت پھیلائی گئی تھی جب مسجد میں وضو کے ٹینک کو پیمائش کے لئے خالی کردیا گیا تھا جسے  لوگوں کو یہ تاثر ملتا تھا کہ کھدائی ہورہی ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ اس کی وضاحت کے لئے ایک اعلان کیا گیا تھا ۔ علی نے کہا کہ سب ڈویژنل مجسٹریٹ (ایس ڈی ایم ) اور سرکل آفیسر  (سی او) پولیس سنبھل بھیڑ کو پرتشدد ہونے اور اکسانے کے لئے ذمہ دار تھے ۔ یہ سب سنبھل کے ایس ڈی ایم اور سی او کی سازش کی وجہ سے ہوا ہے۔ جب لوگوں  نے سی او سے مسجد  میں پانی کے بارے میں پوچھا تو اس نے ان پر گالیاں دیں اور لاٹھی چارج کا حکم دیا۔ علی نے یہ بھی کہا کہ جو بھی سوال کرے گا اس گولی ماردی جائے گی۔ ایس ڈی ایم اور سی او سنبھل نے خوف و ہراس پھیلایا۔ 


Share: