کنداپور 29؍جنوری (ایس او نیوز)گنگولی سے ساحل آن لائن کے نمائندے اور معروف سوشیل ورکر ابراہیم کی کوشش اور کیرالہ میں بے یار ومددگار افراد کے لئے سہارا بننے والے ادارے 'سنیہا لیہ'کے تعاون سے برسوں سے پاگل پن کا شکارہوکر در بدر بھٹکنے والے بہاری نوجوان کو دوبارہ ہوش و حواس کی زندگی ملی اور اپنے خاندان کے ساتھ اس کا ملاپ ہوگیا۔
محمد اختر انصاری(۳۲سال) نامی بہار کا یہ نوجوان کسی پیچیدہ مسئلے کی وجہ سے ذہنی توازن کھو بیٹھا اور چار سال قبل اپنا گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑا ہوا۔ نہ کسی شہر یا منزل کا پتہ اور نہ ہی کوئی مقصد، بس یونہی شہر در شہر بھٹکتا ہوا کنداپور تک پہنچ گیا۔نومبر کے مہینے میں ایک دن تراسی کے پاس 24x7ایمبولینس کے ذریعے مصیبت زدہ افراد کی دن رات خدمت میں لگے ہوئے سوشیل ورکر ابراہیم اور ان کے ساتھی محمد عادل، محمد سلطان اور محمد سعید کی نظر بدحال اور ذہنی طور پر غیر متوازن شخص پر پڑی تو انہوں نے اس سے پوچھ تاچھ کی تو اس نے صرف اپنا نام اختر انصاری اور پتہ گنیش پور بتایا۔پھر ابراہیم کی ٹیم نے اختر کو اپنے دفتر لے جاکرکھلانے، نہلانے اور کپڑے وغیرہ بدلوانے کے بعد اپنی ایمبولینس میں اسے کیرالہ میں واقع سنیہالیہ میں داخل کروایا۔
سنیہالیہ میں 3مہینوں تک اس کا دماغی علاج ہوا اور مسلسل دیکھ ریکھ کے نتیجے میں اختر انصاری بالکل صحتیاب ہوگیا۔تب اس نے اپنا مکمل پتہ سنیہالیہ کے برادر جوزیف کراستا کو بتایا۔ جوزیف نے بہار کے چرچ کے چیف فادر ڈیوڈسے فو ن پر رابطہ کرتے ہوئے اختر انصاری کے گھر والوں اور ان کی رہائش کا پتہ لگانے کی درخواست کی۔ فادر ڈیوڈکے ذریعے اختر کے گھر والوں کو کیرالہ سنیہالیہ کا پتہ دیا گیا تو اختر کے والد، بھائی اور رشتے دار کیرالہ پہنچ گئے اور وہاں سے اختر کو اپنے ساتھ گھر لے گئے۔
بتایا گیا ہے کہ اختر اپنے شہر میں ٹیلرنگ کا پیشہ کرتا تھا۔ وہ اپنی بیوی تین بیٹے اورایک بیٹی کے ساتھ زندگی بسر کررہا تھا۔گھر والوں کو پتہ نہیں کہ کس پریشانی میں الجھ کر اختر نے گھر بار چھوڑ دیا تھا، مگر ان لوگوں نے مسلسل اختر کو تلاش کیاتھا مگر اس کا کوئی پتہ نہیں چل پایا تھا۔گھر والے گزشتہ چار سال سے اس کی زندگی اور گھر واپسی کی دعائیں کیا کرتے تھے ۔کوئی بھی سوچ سکتا ہے کہ اختر انصاری کے لئے اتنے دنوں سے پریشان اس کے بیوی بچوں اور ماں باپ پر کیا کچھ گزری ہوگی۔ ان کی دعاؤں نے اب ان کے لئے اپنے گھر کے چراغ سے ملاپ کا موقع فراہم کیا ہے تو ان کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ انہوں نے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں کی کوشش اور سنیہالیہ کی انسانیت نوازی کی ستائش کی ہے اور ان سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئے ہیں۔