دھنباد (جھارکھنڈ) 13/جنوری (ایس او نیوز /ایجنسی) جھارکھنڈ کے دھنباد میں ایک اسکول پرنسپل کے مبینہ غیر اخلاقی رویے نے والدین اور مقامی افراد میں شدید ناراضگی پیدا کر دی ہے۔ یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب 10ویں جماعت کی طالبات کے امتحان کے بعد منعقدہ ’پین ڈے‘ کی تقریب کے دوران، پرنسپل نے مبینہ طور پر طالبات کو اپنی شرٹس اُتارنے اور صرف بلیزر پہن کر گھر جانے کا حکم دیا، جس پر والدین نے سخت احتجاج کیا۔
اس واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے والدین کا کہنا تھا کہ امتحانات کے بعد بچیاں ایک دوسرے کی شرٹس پر خوشی کا اظہار کر رہی تھیں اور امتحان کی کامیابی کا جشن منا رہی تھیں۔ اس دوران پرنسپل نے اچانک آکر طالبات سے ان کی شرٹس اُتارنے کو کہا اور یہ تک کہہ دیا کہ وہ جس حالت میں چاہیں، بلیزر یا کسی اور انداز میں گھر جا سکتی ہیں۔
طالبات کے والدین نے جب اس واقعے کے بارے میں سنا، تو ان میں شدید غم و غصہ پایا گیا اور فوراً وہ دھنباد کے ڈی سی آفس پہنچے۔ والدین کا کہنا تھا کہ اس واقعے نے ان کی بیٹیوں کی عزت نفس کو نقصان پہنچایا ہے اور اسکول کی انتظامیہ کی اس حرکت نے تعلیمی ماحول کو بھی بدنام کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی کسی بھی تعلیمی ادارے سے ایسی حرکتوں کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
دھنباد کی ڈی سی مادھوی مشرا نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا اور ذمہ دار افراد کے خلاف سخت کارروائی کا وعدہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ ان کے نوٹس میں ہے اور جلد اس پر کارروائی کی جائے گی۔ اس واقعے نے ریاست بھر میں غم و غصہ کی لہر پیدا کر دی ہے اور والدین کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اسکول کی انتظامیہ کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔
والدین نے اس واقعے کو دقیانوسی ذہنیت سے جوڑتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں کو بچیوں کے حقوق کی حفاظت کرنی چاہیے اور اس طرح کی حرکتیں ناقابل برداشت ہیں۔ والدین کا کہنا تھا کہ اسکول کا موقف یہ تھا کہ طالبات کی شرٹس اسکول کے ‘امپریشن’ کو متاثر کر سکتی تھیں لیکن اس سوال کا جواب بھی دیا کہ جب بچیاں بلیزر میں اسکول سے باہر نکلی ہیں تو کیا ان کا ‘امپریشن’ خراب نہیں ہوا؟
اس معاملے میں ضلع انتظامیہ نے وعدہ کیا ہے کہ تحقیقات کے دوران جو بھی حقائق سامنے آئیں گے، ان پر مناسب کارروائی کی جائے گی۔ طالبات کے والدین کو یہ بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ان کی بیٹیوں کی امتحان میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔
یہ واقعہ نہ صرف دھنباد بلکہ ریاست بھر میں تعلیم کے شعبے میں موجود حساسیت اور ذمہ داریوں پر سوالات اٹھا رہا ہے۔ والدین اور سماجی حلقے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ تعلیمی ادارے طالبات کے حقوق کی حفاظت کریں اور کسی بھی صورتحال میں ان کی عزت نفس کو نقصان نہ پہنچائیں۔