نئی دہلی، 6/جنوری (ایس او نیوز /ایجنسی)دہلی اسمبلی انتخابات کے دوران کالکاجی سے بی جے پی کے امیدوار رمیش بدھوڑی کے کانگریس کی رہنما پرینکا گاندھی کے خلاف متنازع بیان نے سیاسی ماحول کو گرما دیا ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر اجے ماکن نے اس بیان کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بی جے پی کی گرتی ہوئی سیاسی اخلاقیات کا ثبوت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے بیانات نہ صرف خواتین کی عزت کے خلاف ہیں بلکہ بی جے پی کی اندرونی سوچ کو بھی بے نقاب کرتے ہیں۔
اجے ماکن نے کہا کہ رمیش بدھوڑی کا یہ بیان نہ صرف شرمناک بلکہ خواتین کے خلاف بی جے پی کی مجموعی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کی خواتین رہنما، وزیرِ اعظم نریندر مودی، بی جے پی کے صدر جے پی نڈا اور خواتین و اطفال ترقی کی وزیر کو ایسے بیانات پر وضاحت دینی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب پارٹی کی قیادت ہی ایسی ذہنیت رکھتی ہو، تو باقی ارکان سے کیا امید کی جا سکتی ہے؟
اجے ماکن نے مزید کہا، ’’یہ صرف رمیش بدھوڑی کا انفرادی بیان نہیں بلکہ بی جے پی کی خواتین کے تئیں احترام کی کمی کا مظہر ہے۔ ایسے بیانات اور زبان کے استعمال پر سخت کارروائی ہونی چاہیے لیکن بی جے پی اس کے برعکس ایسے رویوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔‘‘
انہوں نے کانگریس کی جانب سے مطالبہ کیا کہ بی جے پی کو اس بیان کی مذمت کرنی چاہیے اور عوام سے معافی مانگنی چاہیے۔ کانگریس کے دیگر رہنما بھی پہلے رمیش بدھوڑی کے بیانات پر اسی قسم کے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔
کانگریس کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی قیادت کی خاموشی اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ خواتین کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال ان کی پارٹی کی سوچ کا حصہ ہے۔ اجے ماکن نے عوام پر زور دیا کہ وہ ایسے بیانات کے خلاف آواز اٹھائیں تاکہ سیاست میں شائستگی اور خواتین کے لیے احترام کا فروغ ہو سکے۔
واضح رہے کہ کالکاجی سے بی جے پی امیدوار رمیش بدھوڑی نے کانگریس کی رکنِ پارلیمنٹ پرینکا گاندھی کے بارے میں قابل اعتراض بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بی جے پی اقتدار میں آتی ہے تو وہ کالکاجی کی تمام سڑکوں کو ’پرینکا گاندھی کے گالوں‘ جیسا بنا دیں گے۔
اس بیان پر جب بدھوڑی کو چہار سو سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو انہوں نے اپنے بیان پر معافی مانگ لی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں تھا اور اگر ان کے الفاظ سے کسی کو تکلیف پہنچی ہے تو وہ معذرت خواہ ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ان کا بیان سیاسی تناظر میں تھا اور کسی کی ذاتی توہین مقصود نہیں تھی۔