چھپرہ 9 اگست/(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا) سوشیل میڈیا فیس بُک پر ایک مسلم لڑکے کی جانب سے ہندو بھگوان کی ایک توہین آمیز فوٹو پوسٹ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے چھپرہ میں مبینہ بجرنگ دل کے کارکنوں نے زبردست توڑ پھوڑ مچائی اور مساجد کو بھی اپنے حملوں کا نشانہ بنایا۔ مختلف خبررساں ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق چھپرہ ٹائون سے دس کلومیٹر دور میکر نامی دیہات پہنچ کر شدت پسند تنظیموں کے کارکنوں نے متعلقہ لڑکے کے گھر کوبھی نذر آتش کردیا۔ بتایا گیا ہے کہ جس لڑکے پر فوٹو پوسٹ کرنے کا الزام لگا ہے، وہ بنگلور میں رہتا ہے۔ اس درمیان مسلمانوں کی کئی دکانوں سمیت مسجدوں کو بھی نذر آتش کرنے کی اطلاعات ہیں، اس بات کا الزام لگایا گیا ہے کہ اس موقع پر پولس خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔
ذرائع کے مطابق پولس نے قریب سو لوگوں پر گڑبڑی پھیلانے اور تشدد برپاکرنے کے الزام میں معاملات درج کئے گئے ہیں اور 12 لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ جبکہ حالات پر قابو پانے کے لئے پولس کی زائد فورس پورے علاقے میں تعینات کی گئی ہے۔
اُدھروااقعے کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے قومی صدر نظر عالم نے پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ لگاتار دو دنوں سے چھپرہ اور آس پاس کے علاقوں میں فرقہ وارانہ فساد کی زد میں آئے اقلیتی طبقہ کے لوگوں میں دہشت کاماحول بنا ہوا ہے۔ درجنوں مساجد اور درجنوں دُکانوں کو نذرآتش کیا گیا ساتھ ہی بہت ساری دکانوں کو لوٹا بھی گیاہے اورپولیس انتظامیہ تماش بین بنی ہوئی ہے۔ ان کے مطابق بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار وزیراعظم بننے اور دوسری ریاستوں کے لگاتار دورے کی وجہ کر بہار کی جانب سے توجہ ہٹاچکے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ شرپسند عناصر کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے اور اس کی زد میں اقلیتی طبقہ ہی نشانہ بن رہا ہے۔مذکو رہ باتیں آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے قومی صدر نظرعالم نے ایک پریس بیان جاری کرتے ہوئے کہا۔ مسٹرنظر عالم نے کہا کہ پچھلے کچھ دنوں سیوان میں اسی طرح شرپسند عناصروں نے مسجد میں آگ لگادیاتھا اور کئی دکانوں کو نذرآتش کردیا تھا لیکن حکومت اس معاملے کو اتنی جلد بھول بیٹھے گی اس کا اندازہ نہیں تھا۔ایسا لگنے لگا ہے کہ عظیم اتحاد میں جان بوجھ کر اقلیتوں کو حراساں کرنے کا پلان بناچکے عظیم اتحاد کے لیڈران اپنے منھ اور آنکھ دونوں پر پٹی باندھ کی نیند کی آغوش میں جاچکے ہیں۔ انہیں بہار میں اقلیتوں پر ہورہے ظلم دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔اگر یہی حالت رہی حکومت اور پولیس انتظامیہ کی تو وہ دن دور نہیں کے اقلیتی طبقہ سڑکوں پر اترنے کو مجبور ہوگا۔نظرعالم نے مزید کہاکہ نتیش کمار کا یہ اتحاد کہیں بہار کی بھولی بھالی عوام کو بانٹنے اور کمزور کرنے کے لئے تو نہیں بنایا گیا ہے۔جو نتیش کمار سوشان بابو ہمیشہ انصاف کے ساتھ ترقی کا نعرہ دیتیتھے آج انہیں ایسی کیا مجبوری ہوگئی ہے کہ اقلیتوں پر سے اُن کا دھیان ختم ہوچکا ہے اور اقلیتی طبقہ لگاتار اپنے درجنوں مسائل سے جوجھ رہا ہے۔کہیں فرقہ وارانہ فساد کی آگ سے مسلمان پریشان ہیں تو کہیں روزگار نہیں ملنے کی وجہ کر بھوک مری سے۔ آخر مسلمانوں کے ساتھ سوشاسن بابو کب انصاف کریں گے؟ آخرکب مسلمانوں کے مذہبی مقامات کا تحفظ ہوگا؟ بے روزگاروں کو کب تک روزگار مہیا کرائیں گے جناب نتیش کمار۔آل انڈیا مسلم بیداری کارواں ریاست بہار کی حکومت سے لگاتار اقلیتی طبقہ کے مسائل کو لیکر روبرو کرانے کا کام کررہا ہے لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہا ہے۔ اگر حکومت اسی طرح خاموش اور تماش بین بنی رہی تو آل انڈیا مسلم بیداری کارواں فرقہ ورانہ فساداور روزگار جیسے کئی مسائل کو لیکر حکومت کے خلاف مظاہرہ کرے گا کیوں کہ عظیم اتحاد کو مسلمانوں کو جس طرح سے ایک طرفہ حمایت دے کر اقتدار سونپا ہے انہیں انصاف اور حق چاہئے، تحفظ چاہئے اگر حکومت یہ سب ممکن نہیں کراپاتی ہے تو بہتر ہے کہ سیاست کی کرسی کسی اور کے ذمہ سونپیں۔ سبھی سیاسی پارٹیاں اقلیتی طبقہ کو آزادی سے لیکر آج تک صرف صرف ٹھگنے اور جھوٹی تسلی سے ہی کام چلایا ہے لیکن اقلیتی طبقہ اب اپنے حقوق اور اپنے مذہبی مقامات کی حفاظت کو لیکر سڑکوں پر متحدہوکر ملی تنظیموں کی حمایت کے ساتھ اُترے گا اور حکومت سے آر پار کی لڑائی کا آغاز اکتوبر مہینے سے پٹنہ کے شری کرشن میموریل ہال سے شروع کرے گا جس کی قیادت آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کرے گا جس کی تیاری کارواں سے بڑے پیمانے پر شروع کردی ہے۔