ؓبغداد31جولائی(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)عراقی سکیورٹی فورسز نے بتایاہے کہ جنگجوؤں نے شمالی شہر کرکوک کے نزدیک واقع توانائی کی دو تنصیبات پر حملے کرتے ہوئے چار افراد کو ہلاک کر دیا۔ روئٹرز کے مطابق ان تنصیبات سے کثیف دھواں آسمان کی طرف اٹھتا دیکھا جا سکتا ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز نے اکتیس جولائی بروز اتوار بتایا کہ شمالی عراق میں گزشتہ رات کیے گئے ان حملوں کے نتیجے میں توانائی کی دونوں تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے۔داعش اور طالبان جیسی جہادی تنظیموں کے لیے خراسان کی کیا اہمیت ہے؟۔ یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے اس جغرافیائی علاقے کی مذہبی اور تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے، جو اب مختلف ممالک میں تقسیم ہو چکاہے۔حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پہلا حملہ کرکوک سے پندرہ کلو میٹر دور واقعAB2گیس کمپریسنگ اسٹیشن پر عالمی وقت کے مطابق رات بارہ بجے کیا گیا۔روئٹرز کے مطابق چار مسلح حملہ آوروں نے دستی بموں سے حملہ کرتے ہوئے مرکزی دروازے کو اڑا دیا اور بعد ازاں اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کارروائی میں دو گارڈز شدید زخمی بھی ہوئے۔ان حملہ آوروں نے اس تنصیب کے اندر داخل ہو کر اس اسٹیشن کے چار ملازمین کو گولیاں مار کرہلاک کردیااورپھروہاں دھماکا خیز مواد بھی نصب کر دیا۔ اس تنصیب میں کم ازکم پانچ دھماکوں کی اطلاع ہے۔عراق کی انسداددہشت گردی کی ایلیٹ فورس نے فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس تنصیب میں پندرہ ایسے ملازمین کو زندہ بچالیاجوایک کمرے میں چھپے ہوئے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ اس اسٹیشن پر حکومتی فورسز نے دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔حملہ آوروں کے بارے میں خیال ہے کہ وہ اس کارروائی کے بعد وہاں سے فرار ہوئے اور پھر انہوں نے وہاں سے پچیس کلومیٹردور واقع بائی حسن آئل اسٹیشن پر بھی اسی طرز کا حملہ کر دیا۔ذرائع نے بتایا ہے کہ وہاں حملہ آوروں نے ایک آئل اسٹوریج ٹینکر کو دھماکے سے تباہ کر دیا جبکہ آخری اطلاعات تک سکیورٹی فورسز اور ان حملہ آوروں کے مابین لڑائی کا سلسلہ جاری تھا۔ابھی تک ان حملوں کے لیے کسی گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم ماضی میں انتہا پسند گروہ داعش کے شدت پسند عراق میں ایسے متعددحملوں کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں۔داعش کے جہادیوں نے سن دو ہزار چودہ میں عراق کے ایک تہائی علاقوں پرقبضہ کر لیاتھا۔ تاہم عراقی فورسز، مقامی ملیشیاؤں اور امریکی اتحادی فورسز کی فضائی کارروائیوں کے باعث کچھ مقامات پران جہادیوں کوپسپاکیاجاچکاہے۔
جرمن شہرکولون میں ترک صدر کی حمایت اورمخالفت میں ریلیاں
ؓکولون31جولائی(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)جرمن شہر کولون میں آج اتوار کے روز پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے جس کا مقصد قریباً تیس ہزار ترک یا ترک نژاد باشندوں کی صدر رجب طیب ایردوآن کے حق میں نکالی جانے والی ریلی کو پر امن رکھنا ہے۔ یہ ریلی یورپی ترک تنظیم یوای ٹی ڈی کی جانب سے نکالی جا رہی ہے اور اس کا مقصد جمہوریت کے حق اور فوجی بغاوت کے خلاف آوازبلندکرنابتایاگیاہے۔ دو ہفتے قبل ترکی میں فوج کے ایک دھڑے نے صدر ایردوآن کے خلاف بغاوت کر دی تھی جسے ناکام بنا دیا گیا تھا۔ دوسری جانب ایک جرمن عدالت نے دائیں بازو کی ایک جرمن تنظیم کو صدر ایردوآن کے خلاف آج اتوار ہی کے روز ایک ریلی نکالنے کی بھی اجازت دے دی ہے۔