واشنگٹن5؍اگست(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)امریکہ میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن نے ترک حکام کی جانب سے ان کے خلاف بغاوت کی کوشش کے الزام میں جاری کردہ گرفتاری کے وارنٹ کو مسترد کر دیا ہے۔انھوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ترکی کا عدالتی نظام آزادانہ انصاف سے عاری ہے، یہ وارنٹ صدر اردوغان کی جانب سے آمریت کی جانب اور جمہوریت سے دور جانے کی ایک اور کوشش ہے۔ترک حکومت بغاوت کی ناکامی کے بعد سے امریکہ سے انھیں ترکی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے اور جمعرات کو اس سلسلے میں ان کی گرفتاری کا وارنٹ بھی جاری کیا گیا ہے۔خبر رساں ادارے اناطولو کے مطابق وارنٹ میں 15جولائی کی ناکام بغاوت کے لیے فتح اللہ گولن کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔فتح اللہ گولن نے اس سے قبل بھی گذشتہ ماہ ترکی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا تاہم ترکی کی حکومت کا اصرار ہے کہ بغاوت کی یہ کوشش انھی کے کہنے پر کی گئی تھی۔گولن کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم روادار اسلام کی تبلیغ کرتی ہے۔ادھر امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے اس بات کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اس ماہ کے اواخر میں ترکی کا دورہ کرنے والے ہیں۔اس بات کا انکشاف صدر طیب اردوغان نے ترکی کے سرکاری ٹی وی چینل ٹی آر ٹی کو دیے گئے بیان میں کیاتھا۔انہوں نے کہاکہ تھاکہ میرے خیال میں ان کے وزیر خارجہ21اگست کو آرہے ہیں۔صدر اردوغان نے یہ بھی کہاتھاکہ ترکی کی جانب سے وزارت خارجہ اور وزارت انصاف پر مشتمل ایک وفد امریکہ کا دورہ کرنے والا ہے جہاں وہ فتح اللہ گولن کے بغاوت کی کوشش میں ملوث ہونے سے متعلق امریکی حکام کو شواہد پیش کرے گا۔
ترک صدر کا مبلغ گولن کے کاروباری اداروں کے خلاف سخت اقدامات کا فیصلہ
انقرہواشنگٹن5؍اگست(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے امریکا میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کے ساتھ روابط رکھنے والے کاروباری اداروں کے خلاف سخت اقدامات کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اپنے ایک خطاب میں ایردوآن نے کہا کہ گولی چلانے والوں کو پیسہ دینے والے عناصر کے ساتھ بھی باغیوں جیسا ہی سلوک کیا جائے گا۔ دریں اثناء پچھتر سالہ فتح اللہ گولن نے استنبول کی ایک عدالت کی جانب سے باغیوں کو ہدایات جاری کرنے کے الزام میں اپنے خلاف جاری کردہ وارنٹ گرفتاری کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ ترک عدلیہ آزاد نہیں ہے اور یہ وارنٹ ایردوآن کے مطلق العنان ہونے کی کوشش کی ایک اور مثال ہے۔ واضح رہے کہ ایردوآن حالیہ ناکام بغاوت کے لیے گولن کو قصور وار قرار دیتے ہیں اور اُن کے اسکولوں، کمپنیوں اور فلاحی اداروں کو دہشت گردی کے گڑھ قرار دیتے ہوئے اُنہیں جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔
ریپبلکنز ٹرمپ کی تائید واپس لیں، سابق امریکی فوجیوں کامطالبہ
واشنگٹن5؍اگست(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)بحریہ کے ایک مسلمان سابق اہلکار نیٹ ٹیرانی کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی نفرت انگیز تقریر، تعصب اور اقلیتوں بشمول مسلمانوں کے خلاف کھلے عام تشدد کی ترغیب یہ سب آزادی اور مساوات کی ان اقدار کے منافی ہے جن کے تحفظ کی ہم نے قسم کھائی تھی۔امریکہ میں سابق فوجیوں کی طرف سے ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی مذمت کرتے ہوئے کیپٹل ہل میں درخواستیں دائر کی جا رہی ہیں جن میں سینیٹر جان مکین اور دیگر ریپبلکن رہنماؤں پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی جماعت کی طرف سے ٹرمپ کی نامزدگی کی تائید واپس لیں۔سابق میرین اہلکار الیگزینڈر مکوئے کا کہنا ہے کہ "دنیا میں امریکی ذمہ داریوں سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلسل لاعلمی سے میں اندر تک ہل کر رہ گیا ہوں۔۔۔ ہم نے انھیں سنا کہ وہ وحشی آمروں کی تعریف کر رہے ہیں، انھوں ہمارے انتہائی باوفا اتحادیوں کو چھوڑنے کی دھمکیاں دیں۔۔۔میں نے جتنا سننا تھا سن لیا اب بس۔۔انھوں نے مزید کہا کہ ہم ڈونلڈ ٹرمپ کے بطور کمانڈر انچیف کردار کے متحمل نہیں ہوسکتے۔۔بحریہ کے ایک مسلمان سابق اہلکار نیٹ ٹیرانی کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی نفرت انگیز تقریر، تعصب اور اقلیتوں بشمول مسلمانوں کے خلاف کھلے عام تشدد کی ترغیب یہ سب آزادی اور مساوات کی ان اقدار کے منافی ہے جن کے تحفظ کی ہم نے قسم کھائی تھی۔انھوں نے مزید کہا کہ یہ سینیٹر مکین جیسے قانون سازوں کا اولین فرض ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مذمت کریں اور ان کی تائید واپس لیں۔عراق میں 2004ء میں اپنی جان دینے والے مسلمان امریکی فوجی ہمایوں خان کے والد خضر خان اور والدہ غزالہ خان سے متعلق بیانات پر ڈونلڈ ٹرمپ کو نمایاں ریپبلکنزسمیت سابق فوجیوں کی طرف سے خاصی تنقید کا سامنا رہا ہے۔رواں ہفتے کے اوائل میں ہی سینیٹر مکین نے خود کو ٹرمپ سے فاصلے پر رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مکین بھی ایک سابق فوجی ہیں جب کہ 2008ء میں ریپبلکن کی طرف سے صدارتی امیدوار بھی رہ چکے ہیں۔اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہاکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جان دینے والے ایک فوجی کے والدین کااحترام نہیں کیا، وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ (خضر خان کے)بیٹے جیسے لوگوں کو امریکہ میں آنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔میں یہ نہیں بتا سکتا کہ میں مسٹر ٹرمپ کے بیان سے کس حد تک اختلاف کرتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بیانات ہماری ریپبلکن پارٹی کی سوچ کی ترجمانی نہیں کرتے۔تاہم مکین نے سینیٹ کی اپنی نشست دوبارہ حاصل کرنے کی مہم کے دوران ایسا کوئی بیان نہیں دیا کہ ٹرمپ کی تائید سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔دریں اثناء بعض ریپبلکن خان فیملی سے متعلق ٹرمپ کے بیانات پر ان کا ساتھ دیتے بھی نظر آتے ہیں۔صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں ٹرمپ کے سابق حریف نیورو سرجن بین کارسن کا کہنا تھا کہ خان اور ٹرمپ دونوں کو ایک دوسرے سے معذرت کرنی چاہیئے۔
بنگلہ دیش:آن لائن نیوز فراہم کرنے والی درجنوں ویب سائٹس پرپابندی
ڈھاکہ5؍اگست(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)بنگلہ دیش نے آن لائن نیوز فراہم کرنے والی درجنوں ویب سائٹس پر پابندی عائد کر دی ہے۔ بنگلہ دیشی ٹیلی کمیونیکیشن اینڈریگولیٹری کمیشن بی ٹی آر سی کے چیئرمین شاہ جہاں محمود نے بتایا کہ ایک انٹیلیجنس ایجنسی کی ہدایات پر اُنہوں نے بتیس نیوز پورٹلز اور ویب سائٹس کی بندش کے احکامات جاری کیے ہیں۔ بند کی جانے والی آن لائن سروسز میں اپوزیشن نوازمیڈیابھی شامل ہے۔ صحافتی حلقوں نے اس حکومتی اقدام کو سرکاری سنسر شپ اور آزادیء اظہار پر ایک براہِ راست حملہ قرار دیا ہے۔
فیصلہ کُن ریاستوں میں کلنٹن کو سبقت حاصل ہو رہی ہے:جائزہ رپورٹ
واشنگٹن5؍اگست(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)امریکی صدارتی انتخابات برائے نام قومی مقابلہ ہوا کرتا ہے، جس کا فیصلہ مقبول ووٹ کی بنیاد پر ہوتا ہو۔ اس کے نتائج کادارومدار 50انفرادی ریاستوں کی رائے پر ہوتا ہے، جب کہ امیدواروں کی جیت الیکٹورل کالج کی بنیاد پر ہوتی ہے، جس کا انحصار ہر ریاست کی آبادی اور کانگریس میں اُس کی نمائندگی کی بنا پر ہوتا ہے۔ڈیموکریٹک پارٹی کی ہیلری کلنٹن جو سابقہ وزیر خارجہ ہیں اور ری پبلیکن پارٹی کے ڈونالڈ ٹرمپ جو جائیداد کے نامور کاروباری شخص ہین جو پہلی بار کسی عوامی عہدے کا انتخاب لڑ رہے ہیں۔ دونوں کی کوشش ہے کہ538 الیکٹرز کی اکثریت، یعنی 270 ووٹ حاصل کرلیں، تاکہ وہ وائٹ ہاؤس کے عہدے تک رسائی کا دعویٰ کر سکیں۔اب، جمعرات کو جاری ہونے والے رائے عامہ کے نئے جائزے کے مطابق، چاروں فیصلہ کُن ریاستوں میں کلنٹن کو ٹرمپ پر کافی سبقت حاصل ہوگئی ہے، جب کہ وہ قومی ووٹروں کے سروے میں بھی آگے دکھائی دیتی ہیں۔دیگر اندازوں سے پتا چلتا ہے کہ کسی وقت ٹیلی ویژن ریلٹی شو کے میزبان کے مقابلے میں واضح سبقت حاصل ہے، جو بات الیکٹورل کالج کے اندازوں سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ تاہم، وہ ابھی 270 کی اکثریت کے عدد تک نہیں پہنچ پائیں، ایسے میں جب وہ حمایت کی اوپر نیچے ہوتی ہوئی سطح والی ریاستوں میں ڈیموکریٹک اور ری پبلیکن کی حمایت دونوں صدارتی امیدواروں کے حق میں تقریباً مساوی دکھائی دیتی ہے۔ایک سیاسی تجزیہ کار، ایمی والٹر نے اِس ہفتے کہا تھا کہ کلنٹن کے 270کے عدد تک پہنچنے کے آثار زیادہ ہیں۔ وہ واضح طور پر پسند کی جانے والی امیدوار ہیں۔ لیکن، یہ دوڑ ابھی ختم نہیں ہوئی۔بیٹل گراؤنڈ ریاستوں کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ کلنٹن کو مشی گن کی وسط مغربی ریاست میں اپنے مدِ مقابل پر 9 فی صد شرح کی سبقت حاصل ہے؛ نیو ہیمپاشئر کی شمال مشرقی ریاست میں وہ 11 نکتوں کی شرح سے آگے ہیں؛ جب کہ پنسلوانیا کی مشرقی ریاست اور فلوریڈا کی جنوب مشرقی ریاست میں 6 پوائنٹ کی سبقت حاصل ہے۔ یہ تمام وہ ریاستیں ہیں جہاں حالیہ مقابلوں کے دوران ٹرمپ نے انتخابی مہم چلائی ہے اور ڈیموکریٹک ووٹنگ کے شمار کا نقشہ الٹ چکے تھے، تاکہ اُنھیں نومبر کے انتخاب میں برتری مل سکے کہ وہ صدر براک اوباما کی جگہ لے سکیں، جب وہ جنوری میں اپنی میعاد مکمل کریں گے۔قومی جائزوں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کلنٹن، جو کہ ملک کی پہلی خاتون صدر بننے کے لیے کوشاں ہیں، تیزی سے نمایاں ہو رہی ہیں۔ تاہم، اُنھیں ٹرمپ کے مقابلے میں ناقابلِ تسخیر پوزیشن حاصل نہیں ہوئی۔ جائزوں کا تناسب نکالا جائے تو ٹرمپ کے مقابلے میں کلنٹن کو تقریباً چھ پوائنٹ کی برتری حاصل ہے؛ جو 41.5 کے مقابلے میں 47.4 کی شرح کی ہے۔ حالانکہ فوکس نیوز کے تازہ ترین جائزے سے پتا چلتا ہے کہ گذشتہ ہفتے ڈیموکریٹک نیشنل کنوینشن کے بعد خطاب کرنے والوں کی جانب سے ٹرمپ کی مذمت کے بعد یہ شرح 39 کے مقابلے میں 49 تک پہنچ گئی تھی۔تازہ ترین رائے عامہ کا جائزہ ایسے میں کیا گیا ہے جب ری پبلیکن پارٹی کے رہنماؤں نے گذشتہ ہفتے ٹرمپ کے خلاف سخت بیانات دیے تھے اور مایوسی کااظہارکیا تھا۔ٹوئٹر پر انٹرویوز اور بیانات میں تواتر سے ٹرمپ سنہ 2014 میں یوکرین کے کرائیمیا کے جزیرے پر روس کے قبضے سے باخبر نہیں لگے۔وہ سنہ 2004میں عراق میں جان دینے والے مسلمان امریکی فوجی کے والدین سے بارہا الجھے، جب اُنھوں نے کنویشن میں اُن پر تنقید کی؛ اور پھر متعدد بار ٹیلی ویژن انٹرویوز میں اُنھوں نے اگلے ہفتے ہونے والی پارٹی کے پرائمری الیکشن کے لیے ملک کے چوٹی کے ری پبلیکن اہل کار، ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر پال رائن کی حمایت سے انکار کیا۔
شام میں روسی فوجی کارروائی پر امریکی صدر اوباما کی تنقید
نیویارک5؍اگست(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)امریکی صدر باراک اوباما نے غیر معمولی طور پر سخت الفاظ میں شام میں روس کی فوجی کارروائی کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ اوباما نے کہا کہ صدر بشار الاسد کے دستے بدستور شہری آبادی پر حملے کر رہے ہیں اور انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔وائٹ ہاؤس میں اوباما نے کہا کہ روس اس افسوس ناک کارروائیوں میں براہِ راست شریک ہے، جس سے ماسکو کے اس عزم پر شبہ ہوتا ہے کہ وہ شام میں کشیدگی کم کرنے میں مدد دینا چاہتا ہے۔ شدید لڑائی کی زَد میں آئے ہوئے شہر حلب میں آج کل تین لاکھ انسان محصور ہیں۔