واشنگٹن4؍اگست(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)امریکی صدر باراک اوباما کی طرف سے دو سو سے زائد مجرموں کو قبل از وقت جیلوں سے رہا کرنے کے احکامات جاری کردیے گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دو سو سترہ قیدیوں میں سے تقریباًپینسٹھ مجرم عمر قید کی سزائیں کاٹ رہے تھے۔وہائٹ ہاؤس کے مطابق گزشتہ ایک صدی سے زیادہ عرصے کے دوران ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی امریکی صدر نے اتنی بڑی تعداد میں ایک ساتھ قیدیوں کی رہائی کے احکامات جاری کیے ہوں۔ امریکی صدر کا یہ اقدام ان کوششوں کا حصہ ہے جن کے تحت وہ امریکی عدالتی نظام میں اصلاحات لانا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں گولن کی تنظیم پر پابندی، ترک وزیر کا دورہ کامیاب
کراچی4؍اگست(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)ترکی میں ملکی وزیر خارجہ مولو چاوش اولو کے جلاوطن ترک مبلغ فتح اللہ گولن کی دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیم کی پاکستان میں سرگرمیوں پر پابندی سے متعلق حالیہ دورہ پاکستان کو کامیاب قرار دیا جا رہا ہے۔ترک وزیر خارجہ نے منگل کو اسلام آبادمیں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاتھاکہ فتح اللہ گولن کی تنظیم کے بارے میں وہ پاکستان کے رد عمل سے مطمئن ہیں۔ انقرہ میں ترک وزارت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اب پاکستان کے ساتھ صرف یہ طے کرنا باقی ہے کہ گولن تحریک کے اسکولوں کا انتظام کس طرح سے اور کس ترک ادارے کے حوالے کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق گولن تحریک کے پاکستان کے مختلف شہروں میں قائم اسکولوں کا کنٹرول ترک حکومت کے زیر انتظام المعارف نامی تنظیم کو سونپے جانے کا امکان ہے۔ترک دارالحکومت انقرہ میں موجود صحافی حسن عبداللہ کا کہنا ہے کہ ترک سفارتی اور سرکاری حلقے پہلے ہی پر امید تھے کہ پاکستان گولن کی سرگرمیوں کو روکنے میں ترکی کی مدد کرے گا۔ ڈی ڈبلیوسے بات چیت کرتے ہوئے حسن عبداللہ نے کہاکہ پاکستان نے ترکی کے خدشات کو سنا ہے اور ان کے حل کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے کہ ان اسکولوں میں زیر تعلیم دس ہزار سے زائد پاکستانی طلبا اور ڈیڑھ ہزار سے زائد سٹاف کے ارکان متاثر نہ ہوں۔ ہماری معلومات کے مطابق پاکستان نے بھی صرف اسی بات پر زور دیا ہے کہ وہ اس طرح کی کوئی صورتحال پیدا نہیں ہونے دینا چاہتا۔ترک حکومت ملک میں پندرہ جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کا ذمے دار امریکا میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن کو قرار دیتی ہے۔ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذکے بعد صدر رجب طیب ایردوآن نے گولن تحریک سے منسلک ایک ہزار سے زائداسکول،بارہ سو فاؤنڈیشنیں، 35طبی ادارے، 19یونینیں اور 15یونیورسٹیاں بند کرنے کا حکم دے دیا تھا۔حسن عبداللہ کے مطابق ترکی پاکستان میں گولن تحریک کے اسکولوں کی بندش کے لیے اس حد تک سنجیدہ ہے کہ ترک وزیر خارجہ نے ناکام فوجی بغاوت کے بعد پہلا دورہ پاکستان کاکیا ہے۔انہوں نے کہاکہ فتح اللہ گولن کے تعلیمی اداروں کی بندش کے لیے دیگر ممالک کیساتھ بھی رابطے میں ہے لیکن وہ پاکستان سے اس عمل کا آغاز کر کے باقی ممالک خصوصاََاسلامی ممالک کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ بھی پاکستان کی تقلیدکریں۔ترکی میں پندرہ جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعدسے اب تک60ہزار سے زیادہ افراد کو سرکاری اور نجی ملازمتوں سے برطرف یا معطل کیا جا چکا ہے جبکہ ہزاروں کو باقاعدہ طورپرگرفتار بھی کیاجاچکاہے یا وہ اب تک حکام کی حراست میں ہیں۔ ان افراد میں سے زیادہ تر کو فتح اللہ گولن کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ ترکی کے سکیورٹی اور خفیہ اداروں کے اہلکار ابھی تک ان افراد کی تلاش میں ہیں، جنہوں نے ممکنہ طور پر ناکام فوجی بغاوت میں حصہ لیا تھا۔دوسری جانب ترکی میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے ناکام فوجی بغاوت کی تو مخالفت کی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ حکومت اپنی کارروائیاں کرتے ہوئے قانون کے دائرے میں رہے اور گرفتار کیے گئے یا زیر حراست ہر شہری کے انسانی حقوق کا پورا خیال رکھا جائے۔ حکومت کی جانب سے صحافیوں اور صحافتی اداروں کے خلاف کارروائیوں پر بھی یورپ اور مغربی ملکوں سمیت دنیا بھر میں تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ترک حکومت نے مقامی میڈیا کے ایسے 140سے زائد ادارے بھی بند کر دیے ہیں، جن پر امریکا میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے ترک مبلغ فتح اللہ گولن کی حمایت کا شبہ تھا۔