ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ساحلی خبریں / اسرائیلی فوج نے دو فدائی حملہ آوروں کے مکانات مسمار کر دیے

اسرائیلی فوج نے دو فدائی حملہ آوروں کے مکانات مسمار کر دیے

Sat, 06 Aug 2016 11:57:03  SO Admin   S.O. News Service

الخلیل 5؍اگست(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)قابض اسرائیلی فوج نے گذشتہ روز دو فلسطینی فدائی حملہ آوروں کے مکانات مسمار کر دیے۔ اطلاعات کے مطابق گذشتہ روزاسرائیلی فوج نے جنوبی الخلیل شہر میں یطا کے مقام پر دو اسیر فلسطینیوں خالد اور محمد مخامرہ کے مکانات مسمار کر دیے۔عینی شاہدین نے بتایاکہ صہیونی فوج کی بھاری نفری نے جمعرات کو اسیر مخامرہ اور خالد کے گھروں کامحاصرہ کیا، جس کے بعددونوں گھروں کو بلڈوزروں سے مسمار کرنا شروع کر دیا۔اس موقع پرفلسطینی شہریوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ مشتعل فلسطینیوں نے قابض فوجیوں پر سنگ باری کی۔خیال رہے کہ منگل کو اسرائیلی فوج نے دونوں مکانوں میں رہنے فلسطینی خاندانوں کو مکانات 24 گھنٹوں میں خالی کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ مکانات دوفلسطینی شہریوں کے ہیں جن پرالزام ہے کہ انہوں نے جولائی کے اوائل میں ایک مزاحمتی کارروائی کے دوران چار یہودی آباد کاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ 

وحشیانہ تشدد سے لڑکی شدید زخمییہودی انتہا پسندوں کی فلسطینی لڑکی کو زندہ جلانے کی کوشش
رملہ5؍اگست(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے وسطی شہر رام اللہ میں انتہا پسند یہودیوں نے ایک فلسطینی لڑکی کووحشیانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ اسے زندہ جلانے کی کوشش کی ہے۔ تاہم فلسطینیوں کے موقع پر پہنچ جانے کے نتیجے میں لڑکی کوبچالیاگیا۔یہودی شرپسندوں نے ایک فلسطینی لڑکی کو مشرقی رام اللہ میں رمون کے مقام پر اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا جب وہ اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر بکریاں چرا رہی تھی۔ یہودی آباد کاروں نے بکریوں پر بھی چاقوں اور چھریوں سے حملے کیے،جس کے نتیجے میں کم سے کم 11بکریاں بھی زخمی ہوئی ہیں۔فلسطینی لڑکی پریہودی غنڈہ گردوں نے اس وقت حملہ کیا جب وہ اپنی بھیڑ بکریوں کو بچانے کے لیے آگے بڑھی۔ یہودی آباد کاروں نے فلسطینی لڑکی کو زندہ جلانے کے لیے ایک الاؤ روشن کیا۔ وہ اسے تشدد کے بعد آگ کے الاؤ میں پھینکنے کی کوشش کر رہے تھے کہ فلسطینی شہری موقع پر پہنچ گئے۔ فلسطینیوں کو دیکھتے ہی یہودی دہشت گرد موقع سے فرار ہو گئے۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جب یہودی اشرار نے فلسطینی لڑکی کو زندہ جلانے کی کوشش کی اور اس پر تشدد کرتے رہے تو اس وقت یہودی فوجی بھی کچھ ہی فاصلے پر موجود تھے مگر وہ فلسطینی بچی کو بچانے کے لیے نہیں آئے۔ زخمی ہونے والی لڑکی کو اسپتال میں داخل کر دیا گیا ہے۔ 

اسرائیلی زندانوں میں 300فلسطینی قیدیوں کی عام بھوک ہڑتال
غزہ5؍اگست(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)اسرائیلی جیل انتظامیہ اور صہیونی فوج کی جانب سے اسیران کی شرمناک تفتیش کے ردعمل میں فلسطینی اسیران نے بہ طور احتجاج بھوک ہڑتال کی ایک نئی تحریک شروع کی ہے۔ گذشتہ روز اسرائیلی جیلوں میں300فلسطینی اسیران نے بھوک ہڑتال کا آغاز کیا۔کلب برائے اسیران کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ روز اسرائیل کی ایچل اور نفحہ جیلوں میں پابند سلاسل اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے285اسیران نے بھوک ہڑتال شروع کی۔حماس کے اسیران کی جانب سے بھوک ہڑتال جیل انتظامیہ کے ظالمانہ رویے اور اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے اسیران کی ظالمانہ طریقے سے دوسری جیلوں میں منتقلی کے خلاف بہ طور احتجاج شروع کی۔ حماس کے اسیران نے بھوک ہڑتال غیرمعینہ مدت تک جاری رکھنے کا اعلان کیاہے۔ادھر اسرائیلی جیل میں52روزسے بھوک ہڑتال کرنے والے اسیربلال کاید کی حالت بدستورتشویشناک ہے۔ بلال نے اسرائیلی جیلوں میں 14سال سے زاید عرصہ قید کاٹی۔ قید کی سزا ختم ہونے کے بعد انہیں رہاکرنے کے بجائے صہیونی انتطامیہ نے انہیں انتظامی قید کے تحت جیل میں ڈال دیا۔ 

بیت المقدس کے تین لاکھ باشندے غربت کا شکار!
الخلیل 5؍اگست(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)ویسے تومجموعی طورپرپوری فلسطینی قوم غاصب و قابض صہیونی ریاست کی انتقامی پالیسیوں کے نتیجے سنگین نوعیت کے مالی اورمعاشی بحرانوں کاسامناکررہی ہے مگر فلسطین کے دو علاقے غزہ کی پٹی اور مقبوضہ بیت المقدس صہیونی ریاست کی امتیازی اور ظالمانہ پالیسیوں کا سب سے زیادہ نشانہ بن رہے ہیں۔ مرکزاطلاعات فلسطین کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیت المقدس میں بسنے والے تین لاکھ فلسطینی باشندے دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں اور ان کا شمار غربت کی لکیر سے نیچے والی آبادی میں ہوتا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی ریاست کی طرف سے بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں پر ہمہ نوع پابندیاں عاید ہیں۔ شہری آزادانہ نقل وحرکت سے محروم ہیں۔ شہر کے اندر انہیں کاروبار اور ملازمت کے مواقع میسر نہیں۔شہرسیباہر دوسرے فلسطینی علاقوں میں انہیں جانے کی آزادانہ اجازت نہیں دی جاتی، جس کے نتیجے میں غربت اور بیروزگار کی شرح میں دن رات مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔فلسطین کے ایک تھینک ٹینک اقتصادی ترقی مرکز کی جانب سے ایک رپورٹ مرتب کی گئی جس میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران بیت المقدس میں فلسطینی شہریوں میں غربت اور بے روزگاری میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہوا۔ سنہ 2014ء میں تیار کردہ اعداد و شمار میں بتایا گیا تھا کہ بیت المقدس میں خط غربت سے نیچے زندگی بسرکرنے والے فلسطینیوں کی آبادی کا تناسب 82 فیصد ہے۔ جب کہ یہودی کالونیوں میں غربت کی شرح صرف 22 فی د ہے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی آبادی اور یہودیوں کی کل غریب آبادی کل شرح مجموعی طورپر 49 فیصد ہے۔ سب سے زیادہ غربت مشرقی بیت المقدس میں ہے جہاں فلسطینی آبادی کی اکثریت ہے۔ سنہ 2013ء میں یہاں پر فلسطینیوں کی کل آبادی 67فیصد تھی جب کہ سنہ 2006ء میں 66 فی صد آبادی کا اندراج کیا گیا تھا۔القدس یونیورسٹی سے وابستہ فلسطینی تجزیہ نگار اور اقتصادی امورکے ماہر ڈاکٹرعبدالحمید کا کہنا ہے کہ مشرقی بیت المقدس میں غربت کی شرح میں بے قابو اضافہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مشرقی بیت المقدس کی تین لاکھ آبادی کئی سال سے خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ فلسطینی آبادی پر پچھلے تین عشرے ایسے گذرے ہیں جن میں ہرآنے والا دن ان کی معاشی پریشانیوں میں اضافے کا موجب بنا ہے۔بیت المقدس میں غربت میں اضافے کے اسباب کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ القدس کے مشرقی حصے میں غربت کا ایک برا سبب غرب اردن اور بیت المقدس کیدرمیان تعمیر کی گئی نسلی دیوار ہے۔ اس دیوار نے فلسطینی آبادی کو نہ صرف باہم منقسم کرتے ہوئے ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے بلکہ مہنگائی، غربت اور بے رزگاری کے نہ ختم ہونے والے ایک نئے اور ظالمانہ سلسلے کا آغاز کیا ہے۔ صرف اس دیوار کی تعمیر کیباعث مشرقی بیت المقدس میں سنہ 2013ء اور 2014ء کے دوران غربت میں 8 فی اضافہ ہوا۔ڈاکٹر عبدالحمید القاق کاکہنا ہے کہ اہالیان القدس پر ایک دوسرا بڑا بوجھ صہیونی فوج کی جگہ جگہ قائم کردہ چوکیاں ہیں جہاں آئے روز گذرنے والے فلسطینیوں کو توہین آمیز اور شرمناک نوعیت کی تلاشی اور تفتیش کے عمل سے گذرنا پڑتا ہے۔ مشرقی بیت المقدس کے شہریوں کے لیے غرب اردن سے تجارتی سامان لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔بیت المقدس کے ایک مقامی تاجر جبر الکالوتی کا کہنا ہے کہ بارہ کلو گرام چاول کا تھیلا مشرقی بیت المقدس کی العیزریہ کالونی میں 25شیکل میں فروخت ہوتا ہے جب کہ پرانے بیت المقدس شہر میں اسی تھیلے کی قیمت 120شیکل تک پہنچ جاتی ہے۔ صہیونی انتظامیہ کی طرف سے فلسطینی تاجروں اور دکانداروں کو سامان لے جانے سے سختی سے روکا جاتا ہے۔ جگہ جگہ پابندیوں اور پکڑ دھکڑ کے خوف سے فلسطینی شہریوں نے کاروبار کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔فلسطینی اکنامک ڈویلپمنٹ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق مشرقی بیت المقدس کے 89 فی صد خاندان ایسے ہیں جن کاکم سے کم ایک فرد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسرکر رہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ القدس کے شہریوں کی غربت کی دوسری بڑی وجہ فلسطینی شہریوں کی اندھا دھند گرفتاریاں ہیں۔ کام کاج کے لائق ہزاروں فلسطینی نوجوانوں کو آئے روز وحشیانہ کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ ہلکی پھلکی ملازمت کرنیوالوں کو نام نہاد شبہات کی آڑ میں ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ کوئی بھی مقامی ادارہ فلسطینیوں کو بھرتی کرنے سے گریزاں ہے اور اگر کسی فلسطینی نوجوان کو کوئی روزگار مہیا کرتا ہے تو اسرائیلی فوج اس ادارے کے درپے ہو جاتی ہے۔ یوں فلسطینی نوجوانوں کو بھرتی کرنے سے قبل ان سے اس بات کی گارنٹی لی جاتی ہے کہ وہ صہیونی فوج کے مظالم کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں حصہ نہیں لیں گے۔ اس طرح فلسطینی نوجوانوں کو بلیک میلنگ کا بھی سامنا ہے۔القدس کے 34 سالہ خالد ابو نجمہ نے بتایا کہ میرا تعلق الطور کالونی سے ہے۔ صہیونی حکام کی جانب سے 2009ء میں اسے نوکری سے فارغ کیا گیا اور آج تک اسے گھر پر نظر بند رکھا گیا۔ اس نے بتایا کہ رمضان المبارک کے شروع سے آج تک دوماہ کے عرصے میں اس نے صرف ایک بار گوشت کھایا۔ 


Share: