برلن10/جولائی (ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)جرمن فوجیوں کی منتقلی کا یہ عمل ترکی اور جرمنی کے درمیان گزشتہ کئی ماہ سے جاری سفارتی تناؤ کے بعد شروع ہوا ہے۔ ترکی نے جرمن حکام کو اس فوجی اڈے کا دورہ کرنے سے منع کر دیا تھا۔ترک وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ جرمنی اگر چاہتا ہے تو وہ ترک ایئر بیس سے اپنے فوجی واپس بلا سکتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ ان جرمن فوجیوں کی ترکی میں تعیناتی کی خاطر انقرہ حکومت برلن سے بھیک نہیں مانگے گی۔ انجرلیک سے جرمن فوجیوں کو نکالنے کی منظوری ملکی پارلیمان نے جون میں دے دی تھی۔ اس فوجی اڈے پر 260جرمن فوجی تعینات ہیں۔ ترکی نے جرمن ارکان پارلیمان کی طرف سے اس فوجی اڈے کا دورہ کرنے کی متعدد درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا۔ یہ دورے ماضی میں معمول کا حصہ رہے ہیں۔ تاہم جرمنی کی طرف سے بعض ترک فوجی افسران کو سیاسی پناہ دینے کے فیصلے کے بعد ترکی نے جرمن ارکان پارلیمان کو دورے کی اجازت نہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ترکی کا مؤقف تھا کہ مذکورہ ترک فوجی افسران گزشتہ برس ملک میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت میں ملوث تھے۔جرمنی کی وزارت دفاع کے ترجمان نے اتوار 9 /جولائی کو کہا تھا کہ ترکی کے جنوبی صوبے آدانا میں قائم انجرلیک فوجی اڈے سے جرمن فوجیوں کا انخلاء دونوں ممالک کے درمیان موجود مختلف تنازعات کا اگلا قدم ہو گا۔ ان تنازعات میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک صدر کی طرف سے اپنے مخالفین کے خلاف جاری کارروائیاں اور ترکی میں رواں برس اپریل میں منعقد ہونے والے ریفرنڈم کے سلسلے میں جرمنی میں سیاسی مہم چلانے کی کوشش جیسے معاملات شامل ہیں۔ ترک حکام کی طرف سے انجرلیک فوجی اڈے سے جرمن فوجیوں کی منتقلی کا عمل شروع ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔جرمن پارلیمان کی طرف سے گزشتہ بر آرمینیا میں سلطنت عثمانیہ کی فوج کی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دینے کے حق میں دیا جانے والا ووٹ بھی جرمنی اور ترکی کے درمیان تعلقات میں تناؤ کی وجہ بنا تھا۔انجرلیک فوجی اڈا ترکی کے جنوبی صوبے آدانا میں قائم واقع ہے۔جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے ہفتہ 8 /جولائی کو کہا تھا کہ ان کی ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں ان دو نیٹو اتحادیوں کے درمیان گہرے اختلافات واضح ہو گئے۔ ترک صدر جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کے سلسلے میں برلن میں تھے۔