واشنگٹن،21/جولائی (ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)امریکہ قطر کے ساتھ دہشت گردی کے انسداد اور اس کے لیے رقوم کی روک تھام سے متعلق سمجھوتے کے تحت دوحہ میں پراسکیوٹر جنرل کے دفترمیں اپنے دو سرکاری افسر تعینات کرے گا۔امریکہ اور قطر کے درمیان دہشت گردی سے نمٹنے اور اس کے لیے مالی وسائل کی روک تھام سے متعلق گذشتہ ہفتے ایک سمجھوتا طے پایا تھا۔امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کے دوحہ کے دورے کے موقع پر اس سمجھوتے پر دست خط کیے گئے تھے اور اس کا مقصد قطر اور خلیجی عرب ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی لانا تھا۔اس سمجھوتے میں قطر کی مستقبل میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوششوں اور دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کی روک تھام کے معاملے کو طے کرنے کے لیے رہ نما خاکہ وضع کیا گیا ہے،لیکن اس سمجھوتے کی ابھی تک کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے۔البتہ خطے میں موجود ایک مغربی عہدہ دار کا کہنا ہے کہ اس دستاویز میں قطر سے اس سال کے اختتام تک بعض اقدامات کا تقاضہ کیا گیا ہے اور ان ہی کے تحت امریکہ کے محکمہ انصاف کے دو افسروں کو قطر کے جنرل پراسکیوشن دفتر میں تعینات کیا جائے گا۔اس عہدہ دار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ دونوں امریکی افسر قطری حکام کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور وہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے افراد کا تعین کریں گے۔اس سمجھوتے کے تحت دہشت گردی سے تعلق رکھنے والے مشتبہ افراد پر سفری پابندیاں عائد کی جائیں گی،ان کی نگرانی کی جائے گی اور ان کے اثاثے منجمد کردئیے جائیں گے۔ اس میں دہشت گردی کی بین الاقوامی تعریف سے اتفاق کیا گیا ہے اور کسی خاص گروپ کا اس میں ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ایک قطری عہدہ دار کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کے جنرل پراسکیوٹر امریکی عہدہ داروں کے ساتھ مل کر کام کریں گے، لیکن ابھی اس تعاون کی تفصیل طے نہیں کی گئی ہے۔امریکی عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک مضبوط سمجھوتا ہے اور اس سے دہشت گردی کے خاتمے میں مدد ملے گی۔واضح رہے کہ چار عرب ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے 5 /جون کو قطر کے ساتھ ہر طرح کے سیاسی،سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرلیے تھے۔ان چاروں ممالک نے 59افراد اور بارہ تنظیموں پر مشتمل ایک فہرست جاری کی تھی اور ان پر دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عاید کیا تھا۔ان سب افراد اور اداروں کا تعلق قطر سے ہے۔ان میں مصری نژاد عالم دین اور اخوان کے روحانی پیشوا علامہ یوسف القرضاوی اور اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کرنے والے قطر کے ایک خیراتی ادارے کا نام بھی شامل تھا۔