جانچ ایجنسی، الیکٹرانک اورہندی میڈیا کا ایک طرفہ رویہ افسوسناک، ملی تنظیموں کو متحد ہونے کی ضرورت: نظرعالم
دربھنگہ،12جولائی(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا) معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائک کی شبیہ کئی دنوں سے داغدار کی جارہی ہے جس میں کچھ الیکٹرونک اور ہندی میڈیاکااہم کردار دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یہ اس ملک کا پہلا واقعہ ہے جس میں میڈیا نے ایک طرفہ حملہ بول کر کسی اسلامک اسکالرکو دہشت گرد ثابت کرنے کا کام شروع کردیا ہے جب کہ ملک کی جانچ ایجنسی معاملے کی تحقیق کررہی ہے اور یقیناًجب تک جانچ کا معاملہ سامنے نہیں آجاتا کسی کو دہشت گرد کہنا یادہشت گردوں کا حامی کہنا سراسر غلط ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائک چھوٹانام نہیں ہے جس پر جب چاہے لوگ کیچڑ اُچھال دے۔ گذشتہ دنوں بنگلہ دیش میں ہوئے حملے سے ڈاکٹر ذاکرنائک کاتارجوڑا رہا ہے جب کہ موصوف عمرہ پر ہیں۔ واضح ہوکہ ڈاکٹر نائک اسلامی اسکالر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج انہیں حکومت ہند اپنا نشانہ بنارہی ہے۔ حملہ بنگلہ دیش میں ہوا اور بھارت میں انہیں پھنسانے کی ناپاک سازش رچی جارہی ہے۔ اس معاملے سے نہ صرف مسلمانوں میں برہمی پائی جارہی ہے بلکہ ملک کے انصاف پسند لوگوں میں بھی بے چینی پیدا ہوگئی ہے اورلوگ سڑکوں پر اُترنے کو مجبور ہورہے ہیں۔کیوں کہ ذاکرنائک نے کبھی بھی دہشت گردی کی نہ حمایت کی ہے اور نہ ہی دہشت گردوں سے ان کا کبھی کوئی تعلق رہا ہے۔ ہاں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بڑی تیزی کے ساتھ اسلام مذہب اپنانے کی دعوت ضروردیتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں دوسرے مذاہب کے لوگوں نے اسلام مذہب بھی قبول کیا ہے۔ اب چوں کہ بھارت میں مرکز کی جو حکومت ہے اس میں کچھ فرقہ پرست ذہنیت کے لوگوں کی حمایت حاصل ہے اس لئے ایک خاص طبقہ مسلمانوں کو ٹارگیٹ بنایا جارہا ہے۔مذکورہ باتیں آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے قومی صدر نظرعالم نے کارواں کی ایک اہم نشست میں کہی۔ مسٹر عالم نے نشست میں یہ بھی کہا کہ شیوسینا ذاکر نائک کی گرفتاری اور پھانسی کی مانگ کررہی ہے کیا اُسے جانچ ایجنسی پر بھی بھروسہ نہیں ہے؟ابھی جانچ چل ہی رہا ہے اور غلط بیانی شروع کردی گئی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ذاکرنائک کو غلط طریقے سے پھنسانے کا منصوبہ پہلے سے ہی تیار کیا جاچکا ہے۔ کچھ دنوں پہلے مولانا انظرشاہ قاسمی کی گرفتاری بھی اس کا نمونہ ہے۔ مسلمانوں کو تو نشانہ بنایا ہی جارہا تھا اب مسلمانوں کے مذہبی رہنماؤں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ مسلمان کمزور ہوجائے۔مسٹر عالم نے کہا کہ اگر جان بوجھ کر ذاکرنائک کو غلط طریقے سے پھنسایا گیا تو آل انڈیا مسلم بیداری کارواں سڑکوں پر اُترے گااور پورے بہار ہی نہیں بھارت میں تحریک شروع کرے گا۔واضح ہوکہ ذاکرنائک کے معاملے میں جانچ ایجنسی کا بھی رویہ افسوس ناک ہے کیوں کہ جس جانچ ایجنسی کو اس کے لئے لگایا ہے وہی جانچ ایجنسی کی غلط پالیسی کی وجہ کر مسلمانوں کے جتنے نوجوان آج باہر ہیں اس سے کہیں زیادہ بھارت کی جیلوں میں اپنی بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ جانچ ایجنسی کیسے جانچ میں انصاف کرے گی اور صحیح رپورٹ پیش کرے گی؟ وہیں دوسری جانب الیکٹرونک میڈیا اور ہندی پرنٹ میڈیا کا رویہ بھی افسوس ناک ہے کہ بغیر کوئی ثبوت کے ذاکرنائک پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کی مانگ کی ہیڈنگ بناکر عوام کے بیچ غلط فہمی پھیلار ہے ہیں اورمسلمانوں کی شبیہ کوداغدار بنائے جارہے ہیں۔اس پر حکومت جلد پابندی لگائے ورنہ اس طرح کے معاملے میں بھی اقلیتی طبقہ سوچنے پر مجبور ہے اور جلدہی تحریک چلانے کی مہم کا آغاز کرے گا۔وہیں ہندی اور الیکٹرونک میڈیا کی ہاں میں ہاں اور مرکزی حکومت کے اشارے پر سنگھی ذہنیت رکھنے والے کچھ اُردو اخبارات کا بھی رول اس معاملے میں کافی گھناؤنا دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایک اُردو اخبار نے تو حد ہی کردی کہاوت ہے کہ ’’جس تھالی میں کھاتے ہیں اُسی میں چھیدکرتے ہیں‘‘ وہ ان پر فٹ بیٹھتا ہے اخبار مسلمانوں کے بیچ بیچتے ہیں روپیہ مسلمانوں سے اینٹھتے ہیں اور مسلمانوں کی جڑ کھودنے کا کام انجام دینے میں لگے ہیں۔ چھوٹی اور سستی ذہن کے لوگ ہیں انہیں سنگھ سے بھی ہاتھ ملانے میں ذرادیر نہیں لگتی۔ یقیناًایسے لوگ مسلمانوں کے نام پر دھبہ ہیں اور انہیں ہمارے معاشرے میں کوئی جگہ بھی نہیں ملنی چاہئے۔اقلیتی طبقہ کو ایسے اخبارں کا بھی بائیکاٹ کرناچاہئے۔ بیٹھک میں اکرم صدیقی (ترجمان)، وجئے کمار جھا (جنرل سکریٹری )سرور علی فیضی(ترجمان) مقصودعالم پپوخان(نائب صدر)، مرزا نہال بیگ(ترجمان)، جاویدکریم ظفر، شباہت افتخار، محمدساجد قیصر وغیرہ بڑی تعداد میں کارواں کے ذمہ داروں نے حصہ لیا اور ذاکرنائک کی حمایت کا اعلان کیا۔